پشتون اور افغان

سعد اللہ جان برق  منگل 6 نومبر 2018
barq@email.com

[email protected]

یہ پچھلے سال غالباً نومبر کی بات ہے، ہم کابل میں ایک ’’ صوفی ‘‘ کانفرنس کے لیے گئے تھے۔ کانفرنس کے پروگرام اپنی جگہ چل رہے تھے لیکن درمیان میں ہمیں کچھ اور ادبی تقریبات کو بھی اٹینڈ کرنا پڑا،ایسی ہی ایک تقریب میں ایک صاحب نے ہمارے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ’’ لوئے افغانستان ‘‘ (گریٹر افغانستان ) کے داعی ہیں۔

باری آنے پر ہم نے عرض کیا کہ آپ ہوں گے گریٹر افغان کے داعی لیکن ہم نہیں ہم ’’ لوئے پختونستان ‘‘ یعنی گریٹر پختونستان کے داعی ہیں کیونکہ ’’ افغانستان ‘‘ میں فارسی وان ، تاجک، ازبک، ترکمن اورہزارہ بھی میرے ساتھ شریک ہوں گے، ایسے میں ہمارے لیے پاکستان کیا برا ہے۔

اکثر ان دو لفظوں یا ناموں افغان اور پشتون میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا یا کسی نے غور نہیں کیا ہے ورنہ دونوں قطعی الگ الگ نام ہیں۔احمد شاہ ابدالی نے جب موجودہ ’’افغانستان ‘‘ قائم کیا تو اس وقت سے لے کر آج تک وہاں کے سرکار، دربار، تعلیم اور درسگاہوں مجلسی زندگی، دفتروں میں اورکاروبار کی زبان ’’ فارسی ‘‘ ہی رہی ہے جو اس آٹھ سو یا ہزار سالہ دور کا تسلسل ہے جومحمود غزنوی سے شروع ہو کر انگریزوں کے زمانے تک رائج رہا ہے کہ سرکاری دفتری اور درسی زبان فارسی تھی۔

انگریزی دور میں بھی فارسی کا اردو پشتو وغیرہ پر غلبہ رہا یہاں تک کہ سکھ حکومت میں سارا کام فارسی میںہوتا تھا اور اس ’’ فارسی ‘‘ بالادستی کا نتیجہ پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ بھراپیٹ فارسی بولتا ہے ‘‘ جو اب بھی رائج ہے مطلب یہ کہ اشرافیہ کی زبان فارسی تھی اور یہ گرفت اتنی سخت تھی کہ احمد شاہ ابدالی جو پشتو کا صاحب دیوان شاعر ہے وہ بھی افغانستان اور اردگرد کے علاقوں میں بولی جانے والی زبان  پشتو کو سرکاری، درباری یا درسی زبان نہیں بنا سکا، یہی وجہ ہے بعد میں آنے والے ان حکمرانوں کے ساتھ بھی رہی جو نسلاً پشتون لیکن لساناً فارسی وان تھے اور ان سب کے گھروں میں فارسی کاراج ہوتا تھا، نتیجے میں بال بچے بھی فارسی بولتے تھے کیونکہ فارسی بولنے والوں میں ایک احساس برتری بہت زیادہ ہوتا ہے اور پشتو کو کمی کمین لوگوں کی زبان یا دوسرے الفاظ میں جاہلوں کی زبان سمجھا جاتا ہے۔

ثبوت اس کا یہ ہے کہ افغان مہاجر جب یہاں آئے ان میں ایک فیصد مہاجر بھی فارسی وان نہیں تھے لیکن پندرہ بیس سالوں میں انھوں نے پشتو کا ایک لفظ نہ بولا نہ سیکھا البتہ پورے پشاور شہر کے دکانداروں کو فارسی وان بنا دیا اور ان تمام لوگوں کو بھی جن کا ان سے واسطہ ہوتا تھا ۔پشتون اور افغان الفاظ کی اصل پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی جائے تو اچھا ہے ۔

لفظ پشتون کی اصل تو بخد (BAKHD) ہے جو بلخ کا پرانا نام  اس ’ ’ بخد ‘‘ یا بخدی سے نکلا اور پھر بخت، باختر اور ’’ بکت ‘‘ ہو گیا جو رگ وید میں ’’ پکھت ‘‘ ہے۔ ہیروڈ ڈوٹس نے بھی پکت، پکتی اور پکتو لس لکھا ہے اور دار یوش اعظم کے زمانے کی حکومت کے ساتویں صوبے میں باکتر یا قبائل کا ذکر بھی کرتا ہے۔ لیکن زیادہ واضح ذکر اس مہم کے سلسلے میں کرتا ہے کہ دارائے کبیر نے امیر البحر سکائی لیکان کی سر براہی میں ایک بحری مہم کا تذکرہ کیا اور لکھتا ہے یہ مہم پکتیکا کے ملک میں شہر ’’ کسپا پورلیں ‘‘ کے مقام سے روانہ ہوئی۔ کسپا پورلیں یا کسپاتوریس موجودہ شہر پشاور ہے، (سنٹوریا) یہ تو لفظ پک، پکت اور پکتون یا پشتون کا پس منظر ہوا ، یاد رہے کہ یونانی مورخین نے اس لفظ (X)سے لکھا ہے، (PAXTON)پشتون یا پختون بعد کے نام ہیں ۔

افغان کا نام ’’ اپ گان ‘‘ سے نکلا ہے۔ اپ اپا اپ لمبغی ’’ پانی اور گان بمعنی’’والے ‘‘) جیسے فارسی میں دیہہ گان، دیہاتی یا (دہقان ) کے لیے آتا ہے یا بازرگان آذرگان وغیرہ ،یہ پشتونوں ہی کے اجداد اساک یا سیتھین لوگوں کے وہ قبائل تھے جو بحیئرہ کیسپین کے کناروں پر یا دریائے آمو کی بے شمار شاخوں کے دوابوں اور جزیروں میں رہتے تھے۔ خوراک کے معاملے میں یہ لوگ پانی کی وجہ سے خود کفیل بلکہ مالدار تھے، اس لیے امیر اوربڑے لوگوں میں شمار ہوتے تھے، یونانی مورخ کاؤنٹس کریٹس نے لکھا ہے کہ فارغ البالی کی وجہ سے یہ لوگ لڑائی بھڑائی بھی نہیں کرتے تھے۔

سکندر اعظم سے بھی انھوں اس شرط پر معاملہ کر لیا تھا کہ وہ سکندر کی لشکر کو گھوڑوں کے لیے گھاس اور چارہ مہیا کردیں گے ۔ چنانچہ اب گان (پانی والے ) کہلائے، فارسی والوں نے اسے افغان بنایا جس کی عربوںنے بھی تقلید کی ۔فارسی کے طویل دور اقتدار میں یہ نام سارے پشتونوں پر منطبق ہو گیا ۔ لیکن احمد شاہ ابدالی نے جب افغانستان کے دائرے میں غیر پشتون لوگوں کو بھی شامل کرتے ہوئے اس خطے کا نام افغانستان رکھا ۔ تو یہ نام خاص سے عام ہو گیا، اب کوئی بھی اس خطے سے تعلق رکھنے والا افغان کہلاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ پشتون کا لفظ عام سے خاص ہو گیا، اب صور تحال یہ ہے کہ’’ پشتون ‘‘ تو افغان ہو سکتا ہے لیکن افغان یا ہر افغان پشتون نہیں ہو سکتا۔

کیونکہ افغان کے لیے صرف نسل یا نژاد کافی ہے لیکن پشتون کے لیے تین شرائط ضروری ہیں۔ 1وہ اس مخصوص خطے میں رہتا ہو ۔ پشتو زبان بولتا ہو ۔ اور ’’پشتو ‘‘ جو زبان نہیں ہے بلکہ آئین و دستور ہے، اس پر کاربند ہو۔ چنانچہ افغانستان کے فارسی وان اور دوسری اقوام بھی افغان ہیں۔ ہند، سندھ، پنجاب بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا اگر اس نسل یا خطے میں تعلق رکھتا ہے وہ افغان ہے اور اس کے لیے ’’ زبان ‘‘ یا یہ خطہ یا پشتو آئین و دستور ضروری نہیں، صرف نسل یا اس خطے سے تعلق کافی ہے، چاہے وہ کتنے ہی قدیم زمانوں میں رہا ہو، اس لحاظ سے اگر الفاظ ہی ضروری ہو تو پشتون قوم ہے اور افغان ملت یا اتحاد یا یونین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔