دینی جماعتوں کے سیاسی مستقبل پر منڈلاتے خطرات
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی دینی جماعتیں انتخابی معرکے میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں۔
ملک میں دینی جماعتوں کے سیاسی کردار کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے۔ حالیہ دھرنوں نے اس بحث میں شدت پیدا کی ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج نے بھی ملک میں دینی جماعتوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشانات پیدا کیے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ وقت گزرنے اور جمہوریت کے تسلسل سے دینی جماعتوں کا ووٹ بینک بتدریج نہ صرف کم ہو رہا ہے بلکہ سیاسی منظر نامے میں ان کا کردار بھی محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔
بلا شبہ تحریک لبیک نے حالیہ انتخابات میں کوئی قابل ذکر کامیابی تو حاصل نہیں کی ہے۔ وہ پارلیمان تک تو نہیں پہنچ سکے ہیں لیکن اگر باقی دینی جماعتوں کے ساتھ ان کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان کے نو مولود ہونے کے باوجود ان کی کارکردگی بہت بہتر نظر آئی ہے۔
کارکردگی تو حافظ سعید کی نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کی بھی بری نہیں رہی ہے۔ لیکن شائد حافظ سعید کا قانون پسند اور امن پسند رویہ ان کی سیاسی کامیابیوں کو اجاگر نہیں کر رہا ہے۔آج کل سیاسی طور پر نظر آنے کے لیے دھرنے اور احتجاج ناگزیر ہو گئے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں ان کا سہار نہیں لے رہی ہیں، ان کے سیاسی کردار اور سیاسی مستقبل پر بحث ہو رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی دینی جماعتیں انتخابی معرکے میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ پاکستان میں ایک بھی انتخاب ایسا نہیں ہوا جس میں دینی جماعتوں نے میدان مار لیا ہوا۔ کوئی بھی دینی جماعت یا دینی اتحاد انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں کسی بھی دینی جماعت اور دینی اتحاد کی کبھی حکومت بھی نہیں آئی ہے۔ ملک میں یا تو سیکولر لبرل سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی ہے یا پھر فوجی آمر بر سر اقتدار رہے ہیں۔
دینی جماعتیں حکومتی اتحاد کا حصہ ضرور رہی ہیں لیکن وہ ایک چھوٹی اتحادی رہی ہیں۔ حکومتی اتحاد کی قیادت کبھی کسی دینی جماعت کے پاس نہیں رہی ہے۔ بھٹو صاحب کے مخالف بننے والے اتحاد میں بھی دینی جماعتوں کے ساتھ دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کو نظر انداز کر رہا ہوں۔ لیکن متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کوئی نئی نہیں تھی۔ کے پی اور بلوچستان میں دینی جماعتیں پہلے بھی برسر اقتدار رہی ہیں۔ اس لیے وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نائن الیون کے بعد مخصوص حالات میں اس کامیابی کا مخصوص جواز موجود تھا۔ لیکن بعد میں نہ تو متحدہ مجلس عمل بر قرار رہ سکی اور نہ ہی وہ کامیابی دہرائی جا سکی۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) نے اس ضمن میں کافی کوشش کی ہے لیکن کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
دینی جماعتوں کی اس ناکامی ایک بڑی وجہ پنجاب اور سندھ بھی ہے۔ پنجاب نے بالخصوص کسی بھی دینی جماعت کو کوئی قابل ذکر پذیر آئی نہیں بخشی ہے۔ پنجاب نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ لیکن دینی جماعتوں اوران کی قیادت کبھی بھی پنجاب کاقلعہ سر نہیں کر سکیں ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پنجاب میں دینی جماعتوں کا ووٹ بینک نہیں ہے۔ لیکن ایسا ضرور ہے کہ یہ ووٹ بینک تن تنہا کامیابی حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسی لیے پنجاب میں دینی جماعتیں کامیابی کے لیے اتحادوں کی محتاج رہی ہیں۔ اتحاد میں ایڈجسٹمنٹ سے سیٹیں مل گئیں تو کامیابی مل گئی ورنہ چھٹی۔
بہر حال ماضی میں کیا ہوا یہ اہم نہیں ہے سوال یہ ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا اور حال کیا ہے۔مجھے حال بہت برا لگ رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں ایسا بھی ہے کہ ۔ایک دینی جماعت نے دھرنوں کی سیاست کو اپنی بقا کی سیاست بنا لیا ہے۔ اگر وہ دھرنے دیتے ہیں تو ان کی بقا ہے اور اگر نہیں دیتے تو داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں کی مصداق وہ اپنے وجود کا جواز کھو دیں گے۔ مذہبی سیاسی قیادت ایک اندھی گلی میں پھنس گئی ہے۔ سیاسی قیادت کو سیاسی فہم و فراست کا ثبوت دینا ہوتا ہے اور اس بات کی کوشش کرنی ہوتی ہے کہ وہ خود کو بند گلی میں قید نہ کر لیں ۔
چند سال پہلے صوفی محمد کو سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بہت پذیر آئی مل رہی تھی۔ وہ پاکستان کے سیاسی منظر نامہ کی ایک بڑی حقیقت بن گئے تھے۔ حکومت ان کے ساتھ بھی معاہدہ کر رہی تھی، تب صوفی محمد کا طوطی بول رہا تھا ۔ ریاستی ادارے بے بس نظر آرہے تھے لیکن سوفی محمد بھی بند گلی میں پھنس گئے اور گم ہو گئے۔اگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر دینی سیاسی قیادت نے سیاسی سمجھداری اور سوجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیں کیا تو لگ ایسا ہی رہا ہے کہ وہ بھی گم ہو جائے گی۔
میں یہ نہیں کہ رہا کہ کسی کو اپنے نظریہ پر مفاہمت کرنی چاہیے۔ لیکن انھیں اپنی بات کرنے اور اپنا پیغام عوام تک پہنچانے اور حکومت سے بات منوانے کے متبادل ذرایع پر بھی غور کرنا چاہیے اور بند گلیوں سے راستہ نکالنا چاہیے۔یہ حیقیقت ہے کہ جہاں دینی جماعتوں کے پاس ووٹ بینک کی طاقت کم رہی ہے۔ وہاں اسٹریٹ پاور میں دینی جماعتیں بہت مضبوط رہی ہیں۔ اپنی اسٹریٹ پاور کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر اپنی اہمیت برقرار رکھی ہے۔
قاضی حسین احمد کی سیاست کی بنیاد ہی اسٹریٹ پاور تھی۔ لیکن وہ پر امن رہتے تھے۔ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے تھے تا ہم حکومت کو دباؤ میں رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے اسٹریٹ پاور کی طاقت کو استعمال نہ کر کے اپنی سیاسی طاقت میں کمی کی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا اب جماعت اسلامی کی سیاست میں وہ کردار نہیں رہا جو پہلے ہوتا تھا۔
بہر حا ل آج ملک میں دینی جماعتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ لبرل میڈیا ان کا مسخ شدہ چہرہ عوام کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ لیکن اس میں صرف میڈیا کا قصور نہیں ہے۔ غلطی دینی جماعتوں کی بھی ہے۔ حالیہ واقعات کو ہی سامنے رکھ لیں ۔ ایک موقف کے باوجود ایک پلیٹ فارم نہیں تھا۔ سب الگ الگ تھے۔ اکیلے اسٹیج سجانے کے فوائد بھی ہیں اور نقصان بھی۔ اب سولو فلائٹ کا وقت نہیں ہے۔ اب سب کو ساتھ چلنا چاہیے۔کم از کم جو دینی جماعتیں سیاست کے میدان میں ہیں، سب کو ساتھ مل کر چلنے کی راہ تلاش کرنی ہوگی۔ اس میں ان کی بچت ہے۔ ورنہ اندھی گہری کھائی ان کا انتظار کر ہی ہے۔