اپنے حصے کی شمع
ہزاروں برس پرانی چینی کہاوت ہے کہ اگر تمہارے اردگرد گھپ اندھیرا ہے تو اسے برا بھلا کہنے کی بجائے ایک شمع روشن کر دو۔
ہزاروں برس پرانی چینی کہاوت ہے کہ اگر تمہارے اردگرد گھپ اندھیرا ہے تو اسے برا بھلا کہنے کی بجائے ایک شمع روشن کر دو۔ تمہارا یہ عمل تمہیں انسان کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ دنیا آج اگر اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود بہتر سمت میں سفر کرتی نظر آتی ہے تو اس کا سبب وہ ان گنت گم نام لوگ ہیں جنھوں نے سیکڑوں ہزاروں برس تک اندھیروں میں اپنے حصے کی شمع روشن کی۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان ہزار ہار برس سے دو پیروں پر چلتا رہا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو ہنر مندی سے استعمال کرنا سیکھا، اپنے دماغ سے اس نے اپنے لیے ان گنت آسائشیں اور دوسروں کے لیے عذاب ایجاد کیے۔ اس نے دوسروں کے گھروں، پالتو جانوروں اور ان کی دولت پر قبضے کے لیے لڑائیاں لڑیں، خون کی ندیاں بہائیں، آزاد مردوں اور عورتوں کو غلام اور کنیزیں بنانا اپنا حق سمجھا۔ نت نئے عذاب، اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر آزمائے۔ کسی کو عمر بھر کے لیے ایسی کال کوٹھڑی میں رکھا جہاں روشنی اور ہوا کا گزر نہ تھا، کسی کی آنکھوں میں نیل کی سلائیاں پھرائیں، کسی کے سر میں میخیں ٹھکوائیں اور کسی کی زبان کاٹ لی۔ یہ ناقابل یقین اذیتیں انسانوں نے اپنے جیسے انسانوں کو دیں۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جب یورپ کے چند دانشوروں نے یہ محسوس کیا کہ ان غیر انسانی عقوبتوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے تو انسانی حقوق کے بارے میں تحریریں لکھی جانے لگیں، تقریریں ہوئیں اور انسانوں کو انسان سمجھنے کا رویہ اپنانے پر زور دیا جانے لگا۔
یہ ایک صبر آزما تحریک تھی جس میں یورپ اور امریکا کے دانشوروں نے حصہ لیا۔ انھوں نے طبقاتی، مذہبی اور رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان برتی جانے والی تفریق کے خلاف لوگوں کے شعور کو جھنجھوڑا اور یہ بات تسلسل سے کہی جانے لگی کہ ایک بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے اور آخری سانس تک آزاد رہنا اس کا حق ہے۔ اس کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور اسے تمام حقوق ملنے چاہئیں۔
انسانی حقوق کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کی جدوجہد میں قانون دانوں اور سیاست دانوں کے علاوہ سب سے بڑا کردار ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں نے ادا کیا۔ اس روشنی میں اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حقوق اور انصاف سے محروم انسانوں نے اپنے دانشوروں اور ادیبوں سے بہت سی توقعات وابستہ کیں اور جب وہ توقعات پوری نہ ہو سکیں تو انھیں اپنے دانشوروں اور ادیبوں سے مایوسی بھی ہوئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جو ایچ آر سی پی کے نام سے معروف ہے، وہ ان اہم سماجی اور سیاسی معاملات پر لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے تا کہ سوچنے، سمجھنے والے ان مسائل پر مل بیٹھ کر گفتگو کریں اور ان کے حل کی راہ نکالیں۔ 2012ء میں ایچ آر سی پی نے کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں ''ادیب، فنکار اور انسانی حقوق'' کے موضوع پر ملک کے بہت سے ادیبوں اور فنکاروں کے ساتھ مشاورتی اجلاس کیے۔ ان میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ملک جن گمبھیر اور المناک مسائل سے دوچار ہے، اس کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا ہمارے دانشوروں، ادیبوں اور فن کاروں نے اپنی سماجی ذمے داریاں پوری کی ہیں یا نہیں؟ ان چار شہروں میں ہونے والی مشاورت کی روداد چند دنوں پہلے ایچ آر سی پی کی طرف سے کتابی شکل میں شائع ہو گئی ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والے ان مشاورتی جلسوں میں ملک کے اہم اور نامور لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں ایچ آر سی پی کے چیئرمین آئی اے رحمان بھی شامل تھے جنھوں نے 8 دہائیوں پر پھیلی ہوئی اپنی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ ''میں نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں یہ دیکھا کہ پبلک مباحث کے لیے جو میدان ستر سال پہلے کھلے ہوئے تھے اب وہ محدود ہو گئے ہیں۔ خیالات کو کھنگالنے کے لیے پہلے جتنی گنجائش نہیں رہی اور اتنی طاقت بھی نہیں رہی لکھنے والوں کی اور پڑھنے والوں کی اور سننے والوں کی۔ میں اس کو جمود نہیں کہنا چاہتا کیونکہ جمود کے لفظ سے فوراً ہمارے ادیب ناراض ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمود نام کی کوئی چیز نہیں، ہم تو لکھ رہے ہیں۔ اب اس بات میں تھوڑا سا ابہام ضرور ہے کہ بظاہر حرکت ہو لیکن حرکت میں بھی جمود ہوتا ہے اور بظاہر جمود ہو لیکن اس میں حرکت ہوتی ہو۔'' رحمان صاحب کے یہ جملے بہت سے تلخ حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
کراچی میں یہ اعزاز میرے حصے میں آیا کہ ''حقوق انسانی کی جدوجہد میں ادیبوں اور فنکاروں کے کردار'' پر کلیدی مقالہ پیش کروں۔ اس بارے میں میرا کہنا تھا کہ حقوق انسانی کی بات کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انسانی حقوق کے منشور کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو ہمارے مخالفین اور ہمارے دشمن ہیں۔ عالمی منشور کی تیسری شق ہر شخص کو زندہ رہنے، آزاد رہنے اور ذاتی تحفظ کا پیدائشی حق دیتی ہے۔ ان تمام شقوں پر یقین رکھتے ہوئے ہمیں اپنے دشمنوں سے کہنا چاہیے کہ آج آپ بہت سے بے گناہوں کو ذبح کر رہے ہیں، ان کے اسکول، اسپتال اور قبرستان بموں سے اڑا رہے ہیں۔ لیکن کل جب آپ گرفتار ہوں گے، اپنے مخالفین کے قبضہ قدرت میں ہوں گے تو ہم آپ کے انسانی حقوق کے لیے بھی آواز بلند کریں گے کیونکہ ہم آپ کی طرح، اپنے مخالف کو غیر انسان نہیں سمجھتے۔ اس وقت مجھے میثاق تہران یاد آ رہا ہے جس کی شق 10 میں حقوق انسانی کی نفی کرنے والی کسی بھی جارحانہ کارروائی اور مسلح تصادم کی شدت سے مذمت کی گئی ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی صورت حال سے یا اس سے پیدا ہونے والے ردعمل کے نتیجے میں دنیا بھر کے انسان عذاب ناک تکلیفیں سہتے ہیں۔
میرا کہنا تھا کہ برصغیر میں جب فرقہ واریت کی کالی آندھی چلی تو ہمارے کچھ ادیبوں نے مایوسی کے عالم میں یہ اعلان کیا کہ انسان مر گیا ہے۔ لیکن عین اسی وقت اردو، ہندی، بنگلہ، پنجابی، سندھی اور برصغیر کی دوسری زبانوں کے ادیبوں نے اپنا قلم فرقہ واریت، مذہبی جنون اور قتل عام کے خلاف استعمال کیا۔ ان کی تحریروں میں اس انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں جو نفرتوں اور عداوتوں سے ماورا ہے۔ جنگ، فسادات اور تنازعات کے زمانے میں ادیب حب وطن یا مذہبی وابستگی کا نعرہ مارتے ہوئے کسی ایک فریق کے نہیں، انسان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور یہی انسانی حقوق کی تحریک کی بنیاد ہے جس سے آگے کی طرف سفر کیا جاتا ہے۔
سابق مشرقی پاکستان میں ستم کے کوہ گراں ٹوٹے، ہمارے ادیبوں کی اکثریت خاموش رہی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو خون بہانے والوں کو داد و تحسین سے نوازتے رہے۔ آج بھی ہمارے اطراف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔ ان کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو ان کی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشیں سڑک پر پھینک دی جاتی ہیں۔ ایک طرف ان کو عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کی فرمائش سے نجات ہو جاتی ہے دوسری طرف ہمیں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ''خاموش رہو''۔ لیکن کیا ہمیں واقعی خاموش رہنا چاہیے؟ ہندوئوں، عیسائیوں اور سکھوں پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ احمدی جس خوف و ہراس کا شکار ہیں اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اول تو ہمیں اس کی خبر نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔
پاکستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں عورتوں پر زندگی حرام ہے، بچے جبری مشقت کی چکی میں باریک پیسے جاتے ہیں۔ افغانی، بنگالی، برمی اور دوسرے تارکین وطن پناہ گزین کے طور پر اپنے انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ پانی جو قدرت کی عطا ہے ہمارے شہریوں کو نہیں ملتا۔ بھوک ان کی گردنیں چبا رہی ہے۔ مفلسی نے بچیوں کو بازار میں لا بٹھایا ہے اور اسی عذاب سے کم عمر بچے اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے دوچار ہیں۔ زندہ رہنے کے حق سے، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے ہمارے لوگ محروم کر دیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کی ہر شق اور اس کی ذیلی شق کو ہماری ریاست، ہمارے ادارے اور غیر ریاستی متشدد عناصر پامال کر رہے ہیں۔ ہم ان سنگین حقائق سے آگاہ ہیں ، اس کے باوجود ہم میں سے بیشتر لکھنے والے اس پامالی کی طرف سے آنکھیں چراتے ہیں۔ پاکستان اور بلوچستان کے بدن پر نیابتی جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کے خواب آج بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ جبر و استبداد کیا رنگ لائے گا؟ اس بارے میں آخری فیصلہ مقتدر قوتیں نہیں کر سکیں گی۔ آخری فیصلہ وقت اور تاریخ کا ہو گا۔ ان معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ادیبوں کو سر جھکا کر یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ حقوق انسانی کی پاسداری میں چند کو چھوڑ کر ہم میں سے بیشتر ناکام رہے ہیں۔
یہ ایک ایسا نقطۂ نظر ہے جو عموماً ادیبوں اور فنکاروں کو ناگوار گزرتا ہے لیکن یہ صرف میرا ہی نہیں بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی خیال ہے۔