عرب نیٹو کا قیام
امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جن میں نیٹو پیش پیش رہا ہے بڑی ذلت کے ساتھ افغانستان سے نکلنا پڑا۔
چھ عرب ملکوں نے جن میں کویت، اومان، بحرین، سعودی عرب، یمن اور یو اے ای شامل ہیں، عرب نیٹو بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اس منصوبے پر عملدرآمد اگلے سال ہوگا، اس فوجی اتحاد کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی حمایت بلکہ سرپرستی امریکا کرے گا۔ صدر ٹرمپ کے مزاج کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جنگوں کو فروغ دینا ان کی پالیسی کا بنیادی جز ہے۔ یہ امریکی عوام کی لائی ہوئی وہ بلا ہے جس نے دنیا میں جنگوں کی حمایت کی ہے اور جنگجو ملکوں کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔
خلیجی عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے ملکوں میں پاکستان جیسی جمہوریت بھی نہیں کھلی بادشاہتیں ہیں اور بادشاہتوں میں عوام کی حالت غلاموں جیسی ہوتی ہے، دنیا میں جنگوں کو روکنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا نام نامی اسم گرامی اقوام متحدہ ہے۔ ویسے تو یہ ادارہ 71 سال سے لڑی جانے والی دو جنگوں کشمیر اور فلسطین میں امن قائم کرسکا نہ خون خرابے کو روک سکا لیکن پھر بھی ''امن پسند'' ملک اقوام متحدہ سے اسی طرح پرامید ہیں جیسے ''عقلمند لوگ'' پہاڑ سے دودھ نکالنے کی امید کرتے ہیں۔
چونکہ یہ ادارہ اپنی ابتدا سے امریکا کی سرپرستی میں زندہ اس لیے یہ سمجھنا کہ اس کے فیصلے آزادانہ ہوتے ہیں بے وقوفی کی نشانی ہے۔ عرب ملکوں میں اکیسویں صدی میں بھی بادشاہتیں قائم ہیں اور دنیا کے جمہوری چیمپئن امریکا کا حال یہ ہے کہ وہ عرب بادشاہتوں کا حامی و ناصر ہے اور جب سے امریکا کی صدارت پر ٹرمپ فائز ہوئے ہیں دنیا پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، بحرین کے وزیر خارجہ نے فرمایا ہے کہ ''عرب نیٹو'' کے قیام کا فیصلہ مشرق وسطیٰ سے متعلق حکمت عملی وضع کرنے والے اتحاد ''میسا'' کی تجویز پر کیا گیا ہے۔
یہ نیک کام بہت پہلے ہو جانا تھا لیکن قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان خراب تعلقات کی وجہ یہ بیل منڈے نہیں چڑھ سکی۔ اس کے علاوہ یمن میں جاری خلفشار بھی عرب نیٹو کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ میسا کا قیام خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنا رہا ہے، امریکا کے صدر ٹرمپ نے رواں برس جولائی میں اس اتحاد کو عرب نیٹو کا نام دیا تھا۔
اس خطے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ خلیجی ممالک ہمیشہ ایران سے الرجک رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا ایران کے سخت خلاف ہے۔ ایران امریکا کی غلامی کے لیے تیار نہیں جب کہ خلیجی ممالک یہ اعزاز پہلے ہی حاصل کرچکے ہیں اور امریکا کی سرپرستی کو اپنے بقا کی ضمانت سمجھتے ہیں جب کہ ایران امریکا کی غلامی کے لیے تیار نہیں اور اسی جرم میں ایران کو عرصہ دراز سے امریکا کی سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا رہا ہے لیکن ان پابندیوں کے باوجود ایران امریکا کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔
امریکا کی یہ سامراجی پالیسی رہی ہے کہ وہ خلیجی ملکوں کو ہمیشہ ایران سے بدظن کرکے رکھا ہے ایران کا خوف ہی ہے جو مالدار خلیجی ممالک کو امریکا سے اربوں روپوں کا اسلحہ خریدنے پر مجبور کر رکھا ہے اس حوالے سے شرمناک بات یہ ہے کہ ایران اور خلیجی ممالک اسلام کے نام لیوا ہیں۔
خلیجی ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ملک جمہوری نہیں ہے اور ان ملکوں کے حکمرانوں کو ہمیشہ یہ خطرہ رہتا ہے کہ کہیں عوام ان کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں اس خوف و خطرے کا علاج ان شخصی اور خاندانی حکمرانوں نے یہ کیا کہ امریکا کو اپنا محافظ بنالیا ہے یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایران سے تعلقات بہتر بناکر اور ملک میں جمہوری نظام قائم کرکے ایران سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے بجائے اپنے ملک میں بادشاہتیں مضبوط اور محفوظ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اگر خلیجی ممالک امریکا کی تابعداری نہیں کرتے تو امریکا ان کی حفاظت سے دستبردار ہوسکتا ہے اور یہ تحفظ خلیجی ملکوں کے شیوخ کو امریکا کی غلامی کے لیے مجبور کرتا ہے، خلیجی ملک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ تیل امریکا جیسے جنگ باز ملک کے لیے سونے سے کم نہیں ۔ امریکا کی مفاداتی سیاست نے خلیجی ممالک کو مجبور کر رکھا ہے کہ وہ امریکا کے پٹھو بن کر رہیں اور امریکا ان کی تیل کی دولت سے استفادہ کرتا رہے۔ اب عرب نیٹو بناکر امریکا ایران سے خلیجی ملکوں کے تعلقات کو اور بگاڑ رہا ہے۔
مغربی ملکوں نے نیٹو کو ایک بہت بڑی فوجی طاقت بنا رکھا ہے لیکن اس بہت بڑی اور ناقابل تسخیر طاقت کا بھانڈا افغانستان میں پھوٹ گیا، دس سال تک افغانستان میں طالبان سے محاذ آرائی کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جن میں نیٹو پیش پیش رہا ہے بڑی ذلت کے ساتھ افغانستان سے نکلنا پڑا۔ اب ایران سے محاذ آرائی کے لیے امریکی صدر نے خلیجی ممالک کو عرب نیٹو بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ عرب نیٹو ایران کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتا البتہ مغربی ملکوں کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے اسلحے کی فروخت میں خوب اضافہ ہوسکتا ہے اور بڑے پیمانے پر عربوں کا سرمایہ اسلحے کی خریداری میں لگ سکتا ہے۔
اگر اقوام متحدہ کا ادارہ آزاد ہوتا تو نہ صرف خلیج میں جنگوں کا خطرہ پیدا نہ ہوسکتا بلکہ عربوں کی دولت غریب عرب عوام کی بہتری اور معیار زندگی کو بہتر بنانے میں استعمال ہوتی لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک امریکا ایران دشمنی چھوڑ کر خطے میں امن و امان کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ مسلم ملکوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک تنظیم او آئی سی کے نام سے عشروں پہلے بنائی گئی تھی لیکن وہ مسلم ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے میں ناکام اس لیے رہی کہ اس تنظیم پر بھی امریکا کا دست شفقت موجود ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عرب نیٹو کے قیام سے خلیجی ملکوں کو فائدہ ہوتا ہے یا نقصان۔