غریبوں کا طبقاتی اتحاد

اگر مظلوم انسانوں کو ظالم کا علم ہوجائے تو مظلوم طبقات ظالم کا گریبان پکڑ لیں گے۔


Zaheer Akhter Bedari November 15, 2018
[email protected]

JUPITER: یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ دنیا کے اربوں انسان مٹھی بھر سرمایہ دار طبقے کے چنگل میں سیکڑوں سال سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں؟ جب ہم دنیا بھر میں عوام کے ساتھ ہونے والی معاشی ناانصافی پر نظر ڈالتے ہیں تو ذہن میں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشی ناانصافی کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دو فیصد دولت مند طبقہ 98 فیصد مظلوم طبقے سے طاقتورکیوں ہے اور عوام کو لوٹنے میں آزاد کیوں ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں کو یہ علم تھا کہ اگر 98 فیصد غریب طبقات کو اپنے ساتھ ہونے والی شرمناک معاشی ناانصافی کا ادراک ہو جائے تو وہ 2 فیصد لٹیروں کی تکہ بوٹی کردیں گے۔ اس خوف کی وجہ سے انھوں نے جو اقدامات کیے ان میں سب سے موثر اقدام یہ کیا کہ نجی ملکیت کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کردیا ۔ یعنی کوئی شخص لامحدود دولت اور جائیداد رکھ سکتا ہے۔

انھوں نے اس معاملے میں یہ چال چلی کہ لامحدود دولت اور جائیداد کا حق ملک کے ہر شہری کو حاصل ہے یہ بددیانتانہ چکر بہت سوچ سمجھ کر چلایا گیا، عام آدمی کو دال روٹی کے چکر میں اس طرح پھنسا دیا گیا کہ اسے کسی نا انصافی پر غورکرنے کا وقت ہی نہ ملے وہ دن بھر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے ہی میں مصروف رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں کے ذریعے یہ پروپیگنڈا شدت سے کرایا گیا کہ غربت اور امارت قسمت کا کھیل ۔

اگر مظلوم انسانوں کو ظالم کا علم ہوجائے تو مظلوم طبقات ظالم کا گریبان پکڑ لیں گے اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے لٹیرے دولت مندوں کو قسمت کے پیچھے چھپا دیا اور غریب یہی سمجھتا آرہا ہے کہ غربت اور امارت سب قسمت کا کھیل ہے اگر غریب اور مظلوم طبقات کو یہ علم ہوجائے کہ اس کی غربت کی وجہ امیر طبقہ ہے تو لازماً غریب طبقات اپنے اوپر ظلم کرنے والے دولت مند طبقے کے خلاف صف آرا ہوجائیں گے اور ان ظالموں کا جینا دوبھر کردیں گے۔ اس انجام سے بچنے کے لیے غریب طبقات کو گمراہ کرکے قسمت کے پیچھے لگا دیا گیا۔

دنیا بھر میں رہنے والے انسان کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی مذہب سے تعلق رکھنا جرم نہیں ہے لیکن مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بدترین جرم ہے اور استحصالی طبقات بڑے منظم انداز میں یہ جرم کر رہے ہیں غریب اور ناخواندہ انسانوں کو ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانوں میں مذہبی عداوت اس شدت سے پیدا کردی گئی کہ غریب غریب کا جانی دشمن بن گیا۔ یہ سازش اس قدر منظم اور منصوبہ بند انداز میں کی گئی کہ ناخواندہ، خواندہ، پڑھے لکھے اور جاہل سب اس سازش کا شکار ہوکر رہ گئے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ عموماً غریب طبقات کو خاص طور پر اس سازش کا نشانہ بنایا گیا۔ جہاں مذہب کے نام پر کوئی فساد ہوتا ہے تو مرنے والا اور مارنے والا دونوں ہی غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ، چھوٹے چھوٹے مذہبی فسادات سے لے کر 1947ء میں ہونے والے مذہبی فسادات تک جن میں 22 لاکھ انسان مذہب کے نام پر انتہائی بے دردی سے قتل کر دیے گئے ان میں قتل کرنے والے اور قتل ہونے والے دونوں ہی کا تعلق غریب طبقات سے تھا۔ مذہبی منافرت کا عالم یہ تھا کہ مذہبی اندھوں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ کاٹ کر قتل کردیا یہ ہے وہ سازش جو غریب کو غریب کا گلہ کاٹنے پر اکساتی ہے۔

اس کی دو زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین۔ 71 سال سے کشمیر میں ہندو مسلمان کا تنازعہ کھڑا ہوا ہے جس میں اب تک ستر ہزار کشمیری مارے گئے ہیں۔ ان میں مارنے والے بھی غریب ہیں مرنے والے بھی غریب ہیں۔ فلسطین میں بھی اب تک لاکھوں فلسطینی مارے گئے ہیں کیونکہ ایک فریق عرب ہے دوسرا فریق یہودی ہے۔ اور یہاں بھی مرنے اور مارنے والے غریب طبقات ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی چاہیں تو یہ مسئلے ایک ہفتے میں حل ہوسکتے ہیں لیکن امریکا اور اس کے اتحادی ہرگز نہیں چاہیں گے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے حل ہوں۔کیونکہ یہ مسئلے حل ہوجائیں تو پاکستان اور ہندوستان کے غریب عوام ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور اسلحے کے تاجروں کا اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت نہ ہوسکے گا۔

یہی حال فلسطین کا ہے اگر فلسطین کا مسئلہ حل ہوگا تو فلسطینی اور اسرائیلی عوام ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے۔ جو دولت مند مافیا کے مفادات کے خلاف ہے اسلحے کی تیاری اور تجارت کے سوداگر اہل زر ہیں ان میں امریکی بھی ہیں، فرانسیسی بھی، یہودی بھی ہیں، دولت مند عرب بھی ہیں ہر روز اسلحے کی فیکٹریوں میں دھڑا دھڑ اسلحہ بن رہا ہے اور متحارب ملک اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کر اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہے ہیں اگر قوموں کے درمیان تنازعات ختم ہوجاتے ہیں تو اسلحے کی تجارت ختم ہوجائے گی اور اسلحہ مافیا کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔

دنیا کے سرمایہ دار طبقے کا مفاد اسی میں ہے کہ دنیا کے غریب بٹے ہوئے رہیں ان کے درمیان رنگ نسل مذہب و ملت کی تقسیم ختم نہ ہو کیونکہ غریب طبقات کی یہ تقسیم سرمایہ داروں کے لیے ضروری اور فائدہ مند ہے۔ جس دن غریب طبقات خواہ ان کا تعلق کسی مذہب کسی ملت سے ہو اس صدیوں پر پھیلی ہوئی تقسیم کے نقصانات کو سمجھ لیں گے اس دن وہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے چنگل سے نکل آئیں گے اور وہ دن لٹیرے طبقات کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔ دنیا کے اہل علم اہل فکر اور اہل دانش کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ سرمایہ داروں کی چال کو سمجھیں اور طبقاتی بنیادوں پر اس طرح منظم ہوں کہ ان کی اجتماعی طاقت سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی موت ثابت ہو۔

مقبول خبریں