سنو کہانی تصاویر پوسٹ کیں اور ہزاروں ڈالر کھودیے

بیماری کے بہانے تفریح کرنے اور انشورنس کمپنی سے رقم بٹورنے والی خاتون کی غلطی انہیں لے ڈوبی


June 24, 2013
فوٹو : فائل

''دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا'' اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ راز کسی اور نے نہیں کھولا، بل کہ اس دھوکے باز کے خود کو دکھانے کے شوق نے اس کے جھوٹ کی پول کھول دی۔

یہ قصہ ہے ایک کام چور خاتون کا۔ موصوفہ کینیڈا کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کیوبک کی باسی ہیں، نام ہے ان کا Nathalie Blanchard۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ یہ صاحبہ ٹیکنالوجی سے متعلق أ ایک مشہورِزمانہ ملٹی نینشل کمپنی سے وابستہ تھیں۔ موصوفہ ہر ماہ ''بیمار'' ہوجاتیں، اب ظاہر ہے بے چاری بیمار خاتون کام کیسے کریں، تو چھٹی لے لیتیں، نہ صرف چھٹی کرتیں بل کہ اپنے ادارے کی انشورنس کمپنی سے بیماری کی تعطیل کی مد میں ملنے والی مالی مراعات بھی بٹورتیں۔ چند سال پہلے انھوں نے اس بہانے کے ساتھ درخواست دی کہ وہ ڈپریشن میں مبتلا ہیں، لہٰذا انھیں چھٹی عنایت کی جائے۔ چھٹی مل گئی۔

تعطیل کی درخواست منظور ہوتے ہی یہ صاحبہ خوش خوش ایک ساحلی مقام جا پہنچیں۔ وہاں انھوں نے خوب لطف اٹھایا، ساحل پر دل بھر کے تفریح کی، ساحل کی دھوپ سینکی، ایک بار میں بڑا اچھا وقت گزارہ، دوستوں کی سنگت میں اپنی سال گرہ منائی۔ ان ''بیمار'' خاتون نے غلطی بل کہ حماقت یہ کی کہ اپنی ان تفریحات اور پُرلطف لمحوں کی تصاویر فیس بُک پر پوسٹ کردیں۔

اب موصوفہ چھٹی سے واپس آئی تو تعطیل کی مراعات کے لیے اپنے ادارے کی کمپنی سے رجوع کیا، مگر اس وقت وہ حیران رہ گئیں جب کمپنی نے انھیں ٹھینگا دکھا کر ایک ٹکا بھی دینے سے انکار کردیا۔ پتا یہ چلا کہ ان خاتون کی فیس بک پر پوسٹ کی ہوئی تصویریں انشورنس کمپنی کے ہاتھ لگ گئی ہیں اور ''ڈپریشن کی شکار'' خاتون کو خوش باش اور تفریح میں مگن دیکھ کر انشورنس کمپنی نے ان کی مراعات واپس لے لی ہیں۔

ان خاتون کا کہنا تھا کہ میں نے تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر یہ تفریح کی تھی اور وہ خود کو ڈپریشن سے نکالنے اور اپنے مسائل بھولنے کے لیے اس ساحلی مقام پر گئی تھیں اور انھوں نے اپنے اس تفریحی دورے سے انشورنس کمپنی کو آگاہ کردیا تھا۔ فیس بُک پر پوسٹ کی جانے والی اپنی تصاویر، جنھوں نے ان کے لیے مصیبت کھڑی کردی، کے بارے میں انھوں نے کہا،''بس ان لمحات کے دوران میں خوش تھی، لیکن اس سے پہلے اور بعد میں، میں انھی مسائل کا شکار تھی۔''

یہ خاتون اس بات پر بھی حیران رہ گئیں کہ انشورنس کمپنی نے ان کی تصاویر تک رسائی کیسے حاصل کی؟ کیوں کہ ان کا فیس بُک پروفائل ''لوکڈ'' ہے اور اس تک وہی لوگ رسائی حاصل کرسکتے ہیں، جنھیں وہ اس کی اجازت دیں۔

موصوفہ کے وکیل کا کہنا تھا،''میں نہیں سمجھتا کہ کسی کی ذہنی حالت سے واقفیت کے لیے فیس بُک کوئی مناسب ذریعہ ہے۔'' دوسری طرف انشورنس کمپنی نے دبے لفظوں میں یہ اعتراف کرلیا کہ وہ اپنے صارفین کی بابت تحقیق کے لیے فیس بک کو بھی ذریعہ بناتی ہے۔ اس حوالے سے کینیڈین لائف اینڈ ہیلتھ انشورنس ایسوسی ایشن کی ترجمان نے کہا کہ ہم فیس بُک جیسی ویب سائٹس کو نظرانداز نہیں کرسکتے، جو اطلاعات کا ذریعہ ہیں۔

اس طرح Nathalie Blanchard اپنی غلطی کی وجہ سے ہزاروں ڈالر کی رقم سے محروم ہوگئی۔

اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ سوشل ویب سائٹس اپنی تصویریں پوسٹ کی جائیں ذرا سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کے، کیوں کہ ان پر سب کی نظر ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں