اسلم پرویز نے ولن اور ہیروکے منفرد کردارنبھائے
کیرئیر کا آغاز 55ء میں فلم ’’قاتل‘‘ سے کیا ،21نومبر 84ء کو انتقال کرگئے
پاکستان کی اردو فلموں میں منفرد کرداروں میں جس اداکار کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی وہ نام اسلم پرویز کا تھا ۔
تھری پیس سوٹ میں ملبوس بظاہر ایک مہذب اور باوقار شخص اپنی منفی حرکتوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے فلم کے ہیرو اور ہیروئن کی زندگی کو فلم کے اختتام تک اجیرن بنائے رکھتا ہے۔ چوٹی کا یہ ولن اپنے ابتدائی دور میں پاکستان کا تیسرا کامیاب ترین فلمی ہیرو تھا ۔ اسلم پرویز نے ایک ایسے وقت میں فلمی دنیا پر بطور ہیرو راج کیا تھا جب پاکستان کی فلمی تاریخ کے بڑے بڑے نام یعنی سنتوش اور سدھیر جیسے بھاری بھرکم ہیروز کے مقابلے میں اسلم پرویز ایک ہلکے پھلکے ہیرو تھے ۔انھیں اداکار درپن ، اکمل ، اعجاز، حبیب اور کمال کے مقابلے میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی ۔
21جنوری 1955ء کو اسلم پرویز کی پہلی فلم ''قاتل'' ریلیز ہوئی جوہدایتکار انور کمال پاشا کی شاہکار فلم تھی ،جس میں وہ صرف ایک سائیڈ ہیرو تھے اور ان کا فلمی نام ''ضیاء'' تھا۔ عظیم فلمی ہیرو سنتوش اپنی ہیروئن صبحیہ کے ساتھ مرکزی کرداروں میں تھے جب کہ اسی فلم میں پہلی بار مسرت نذیر اور نیر سلطانہ کوبھی چھوٹے چھوٹے کرداروں میں متعارف کرایا گیا تھا اور اکمل نے بھی ایک ایکسٹرا کے طور پر کام کیا تھا۔ اسی سال کے اختتام پر بطور ہیرو پہلی فلم ''پاٹے خان'' ریلیز ہوئی تھی جس میں ان کی جوڑی ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ تھی ۔ اس میں اسلم پرویز کی دوسری ہیروئن مسرت نذیر تھی ۔
اپنی پہلی فلم میں ہی انھیں ایک ہرجائی ہیرو کا رول کرنا پڑا تھا جو انھیں بعد میں کئی فلموں میں کرنا پڑا۔1957ء میں اسلم پرویز کی چھ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں لیکن ان میں صرف دو فلمیں ''آس پاس '' اور ''زلفاں'' کامیاب ہوئیں۔ اس سال کی ناکام ترین فلم ''لیلیٰ مجنوں'' تھی جو اس لیے قابل ذکر ہے کہ اس کے انور کمال پاشا ہدایتکارتھے۔ مگر بہار اور اسلم پرویز کسی طرح سے بھی صبحیہ اور سنتوش کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ 1958ء میں اسلم پرویز کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں دو فلمیں ''چھومنتر'' اور ''شیخ چلی'' کامیاب ہوئیں جب کہ دیگر تین فلمیں ''کچیاں کلیاں'' ، ''نیا دور'' اور ''نئی لڑکی '' ناکام ہوئیں۔ 1959ء کا سال اسلم پرویز کی فنی زندگی کا ایک یادگار سال تھا جب ان کی سب سے بڑی فلم ''کوئل'' ریلیز ہوئی تھی یہی فلم ملکہ ترنم نورجہاں کی پاکستان میں کل تیرہ فلموں میں سب سے زیادہ کامیاب تھی۔
1960ء اسلم پرویز کے انتہائی عروج کا سال تھا لیکن اسی سال وہ باقاعدہ طور پرایک فلم ''سہیلی'' میں ولن آئے تھے ۔ ایک ہرجائی ہیرو ہوتے ہوئے اب وہ ایک مکمل ولن بن گئے تھے اور اس سال کی ریکارڈ بارہ فلموں میں سب سے کامیاب فلم ''سہیلی '' تھی ۔1961 ء میں اسلم پرویز کی مقبولیت کا گراف گرنا شروع ہو گیا اور آٹھ میں سے کوئی ایک بھی فلم کامیاب نہ ہوسکی تھی ۔ بتایا جاتا ہے فلم بین کسی بھی فلمی ہیرو سے کبھی اتنا نہیں اکتائے جتنا وہ اسلم پرویز سے اکتا گئے تھے۔ ان میں ''چھوٹے سرکار'' ، ''ہم ایک ہیں'' ، ''منگول'' ، ''صبح کہیں شام کہیں'' ، ''سن آف علی بابا'' ، ''سنہرے سپنے '' ، ''تین پھول'' ، ''زمین کا چاند'' ، ''منگتی'' اور ''ڈنڈیاں '' شامل ہیں ۔ 1964 ء اسلم پرویز کی ہیرو شپ کے تسلسل کا آخری سال ثابت ہوا تھا جب ان کی بہار کے ساتھ اکلوتی فلم ''لیٹرا'' ریلیز ہوئی تھی ۔
اسلم پرویز نے بطور ہیرو اور ولن ان گنت فلموں میں کام کیا ۔ وہ ایک خوشحال اور خوش پوشاک شخانسان تھے ۔ ان کے والد لاہور کے مال روڈ پر پراپرٹی کے علاوہ مشہور سینما رتن کے بھیمالک تھے ۔ اسلم پرویز نے اپنے وقت کی اداکارہ خاور سلطانہ کے ساتھ شادی کی تھی ۔ 14نومبر 1984ء کو فلم ''جورا'' کی شوٹنگ سے واپسی پر اداکار اقبال حسن کے ساتھ کار حادثے میں شدید زخمی ہوگئے تھے اور ایک ہفتہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد 21 نومبر 1984ء کو انتقال کرگئے تھے۔