اورکزئی ایجنسی میں قیامت ٹوٹ پڑی

روخان یوسف زئی / نوید جان  ہفتہ 24 نومبر 2018
شاید امن کی دشمن قوتوں کو یہ سب کچھ ہضم نہیں ہو پارہا ہے اور وہ اب بھی مذموم کوششیں کررہی ہیں۔ فوٹو: فائل

شاید امن کی دشمن قوتوں کو یہ سب کچھ ہضم نہیں ہو پارہا ہے اور وہ اب بھی مذموم کوششیں کررہی ہیں۔ فوٹو: فائل

پشتو عوامی شاعری کا ایک ٹپہ ہے کہ
د عاشق کور د میگی کور وی
د میگی کور کلہ خالی د غم نہ وینہ

یعنی عاشق کا گھر چیونٹی کا گھر ہوتا ہے اور چیونٹی کا گھر کبھی بھی غم اور تکلیف سے خالی نہیں رہتا۔یہی حالت ہماری بھی ہے۔ پورے ملک اور بالخصوص سابق قبائلی علاقوں سمیت خیبرپختون خوا کو بھی آئے دن کسی نہ کسی افتاد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جہاں کوئی نہ کوئی ایسا دل سوز اور انسان سوز واقعہ رونما ہوجاتا ہے جو سب کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور جس سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ملک دشمن عناصر اور قوتیں کسی صورت پاکستان میں امن قائم ہونے نہیں دینا چاہتیں۔

ابھی پاکستان کے معاشی حب کراچی میں دوست اور پڑوسی ملک چین کے قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے کی خبریں مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چل رہی تھیں کہ یکایک ایک اور دل خراش اور سماعتوں کو پھاڑ ڈالنے والی خبر ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہوئی۔ یہ سابق قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی کے سب ڈویژن لوئر اورکزئی کے کلایا بازار میں ہونے والے سانحے کی خبر تھی۔ اس علاقے میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا، جس میں تادم تحریر30افراد جاں بحق اور55 افراد شدید زخمی ہوگئے ہیں۔

سیکیوریٹی ذرائع کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب کلایہ بازار میں ہفتہ وار لگنی والی منڈی میں مقامی اور قرب وجوار کے باشندے حسب معمول خریداری میں مصروف تھے۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز، اورکزئی انتظامیہ اور لیوی فورس نے جائے وقوعہ پہنچ کر جاں بحق افراد کی لاشیں اور زخمیوں کو فوری طور پر کلایہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اورکزئی منتقل کر دیا۔ محکمۂ صحت اورکزئی ذرائع کے مطابق دھماکے کے مجموعی 55 زخمیوں میں 35 شدید زخمیوں کو تشویش ناک حالت میں پشاور کے ہسپتالوں کو ریفرکر دیا گیا ہے۔

اس دوران جائے وقوعہ پر قیامت صغریٰ کا منظر تھا، فورسز، انتظامیہ اور مقامی آبادی کے رضاکاروں نے امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا، جب کہ اورکزئی انتظامیہ نے فوری طور پر کلایہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سمیت قریبی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ ذرائع کے مطابق دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ ایک موٹرسائیکل میں نصب شدہ بارودی مواد کو ریموٹ کنٹرول سے اڑایا گیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹا کرلیے ہیں اور علاقے میں سرچ آپریشن بھی شروع کیا گیا ہے۔ ادھر اورکزئی قبائلی عمائدین اور مشران نے کلایہ بازار میں دہشت گردی کے اس مذموم واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر نہایت دکھ اور رنج کا اظہار اور واقعے میں ملوث عناصر کو فوری طور پر بے نقاب کرکے کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو مذکورہ دل خراش اور انسانیت سوز واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب تمام قبائلی ایجنسیاں خیبرپختون خوا میں ضم ہوچکی ہیں، جس کا سب سے اہم مقصد مذکورہ علاقوں میں چھپے دہشت گردوں کا مکمل صفایا، امن کا قیام اور ان پس ماندہ علاقوں کی تعمیر وترقی قرار دیا گیا ہے۔

مگر شاید امن کی دشمن قوتوں کو یہ سب کچھ ہضم نہیں ہو پارہا ہے اور وہ اب بھی مذموم کوششیں کررہی ہیں کہ عوام میں اس قسم کی کارروائیوں سے دہشت اور خوف ہراس پیدا کیا جائے، ملک خداداد میں عدم استحکام کی فضاء بنائی جائے، کیوں کہ سابق قبائلی علاقوں میں پاک فوج کی جانب سے مختلف آپریشنز سے وہاں دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے، جس کے طفیل زندگی دوبارہ بحال ہونی والی تھی اور کچھ عرصہ یہاں قیام امن سے یوں لگ رہا تھا کہ یہاں پھر سے امن کے گیت گائے جائیں گے، فصلیں لہلہاتی رہیں گی، ہر سو پیار کے پھول کھلیں گے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ انضمام کے بعد دہشت گردی کا کوئی ایسا بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔

تاہم سب کو اندازہ تھا کہ ملک دشمن قوتیں پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی کوششیں کرتی رہیں گی۔ چناں چہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گذشتہ دنوں بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ بعض قوتیں ملک میں قائم امن اور استحکام کے خلاف نسلی اور مذہبی منافرت کی آڑ میں ہائبرڈ جنگ مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ اس تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ کچھ عناصر دانستہ و نادانستہ طور ملک کو تصادم اور بدامنی کی جانب لے جارہے ہیں، ان کا بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ دہشت گردی و شدت پسندی کی وجوہات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں اس قسم کا سانحہ پیش آنا ان کی اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ دشمن اب بھی ہمارے خلاف سازشوں کے جال بُن رہا ہے۔

مذکورہ واقعے کے بعد خیبرپختون خوا کے وزیراطلاعات شوکت یوسف زئی کا بھی یہی کہنا ہے کہ حالیہ واقعہ وطن دشمن قوتوں کی کارستانی ہے اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ایک منظم سازش ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ قبائلی علاقے چوں کہ صوبے میں ضم ہوچکے ہیں اور وہ قوتیں یا عناصر نہیں چاہتے کہ قبائل بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح ترقی کریں اور انہیں بھی امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے۔

اس لیے یہ قوتیں اس قسم کی کارروائیوں سے انضمام کا عمل متاثر کرنا چاہتی ہیں، یا شاید انضمام کے بعد یہاں امن قائم ہونے سے ان عناصر کو اپنے ٹھکانے قائم رکھنا مشکل تر نظر آٰرہا ہے ، چوں کہ فوجی آپریشنز اور سیکیوریٹی فورسز کی کڑی نگرانی کی وجہ سے اب سابق قبائلی علاقوں تک دہشت گردوں کی رسائی ممکن نہیں رہی، لہٰذا اب وہ ایسی ہی جگہوں اور بازاروں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جہاں عوام لوگوں کا رش ہوتا ہے تاکہ دھماکے وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ انسانی جانوں کازیاں ہو، حالیہ دھماکا یقیناً بہت بڑا سانحہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، تاہم اس قسم کے واقعات کی مکمل روک تھام تب ہی ممکن ہے جب عوام، پولیس، سیکیوریٹی ایجنسیاں اور تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہوں، تاکہ ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب نہ ہوسکیں، جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ اب بعض نادیدہ اور امن دشمن قوتیں ہمیں ایک اور مصنوعی جنگ کی جانب دھکیل رہی ہیں، کیوں کہ وہ یہ حقیقت جان چکی ہیں کہ ہماری مقتدر قوتوں نے اب اٹل فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے لیے اپنے ملک اور قوم کا مفاد مقدم ہے، ہماری پالیسی وہ ہوگی جو ملک و قوم کی بہتری کے لیے ہو جس سے ہم پرائی جنگ کے ان کے شعلوں سے اپنے دامن کو محفوظ کرلیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں اورکزئی کے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پائی جاتی رہی ہے اور یہاں پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہلاکتوں کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں، اورکزئی کو ضلع کا درجہ رواں سال اس وقت دیا گیا جب قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا گیا، اس سے قبل یہ وفاق کے زیرانتظام اورکزئی ایجنسی تھی اور کزئی 1973سے قبل ایف آر کوہاٹ میں شامل تھا۔ ماضی میں اورکزئی ایجنسی میں دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں خصوصاً دو ہزار چھے کے بعد کافی تیزی آگئی تھی۔

اورکزئی ایجنسی ۔۔۔ضروری معلومات
اورکزئی ایجنسی میں اورکزئی قبیلے کی بڑی قومیں علی خیل، ماموزئی، ربیعہ خیل، آخیل، مشتی، شیخان، مامازئی، فیروز خیل، اتمان خیل، ستوری خیل اور سیالئے وغیرہ آباد ہیں۔ اورکزئی ایجنسی میں دو سب ڈویژن ہیں اپر اورکزئی ایجنسی اور لوئر اورکزئی ایجنسی۔ اپر اورکزئی میں اپر تحصیل اور اسماعیل زئی تحصیل شامل ہیں، اور کزئی قبیلہ کل ملا کر 18اقوام پر مشتمل ہے۔ مذکورہ ا اقوام کے علاوہ اس قبیلے میں رنڈ خیل اور علی شیر زئی وغیرہ بھی شامل ہیں ۔

ضلع اورکزئی ایجنسی کے مشرق میں ضلع کوہاٹ اور درہ آدم خیل، جنوب میں ضلع کوہاٹ اور ضلع ہنگو، مغرب میں کرم ایجنسی اور شمال میں خیبر ایجنسی واقع ہیں۔ لوگوں کی مادری زبان سو فی صد پشتو ہے، نوجوان نسل تعلیم کی دل دادہ ہے، اس لیے ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہے۔

اورکزئی ایجنسی کا بیشتر علاقہ پہاڑی ہے جہاں پر گھنے جنگلات پائے جاتے ہیں، پہاڑوں میں اکثر مقامات پر کوئلے کے ذخائر پائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ دیگر معدنیات بھی موجود ہیں۔ اور کزئی ایجنسی میں میدانی علاقے بھی ہیں جہاں پر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اس کے علاوہ یہاں کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد بیرون ملک بھی مقیم ہے۔

اہم مقامات اور بازاروں میں غلجو بازار جو اپر سب ڈویژن کا صدر مقام ہے اور اپر اورکزئی کے تمام ہیڈ کوارٹر، نادرا آفس اور ہسپتال وغیرہ اسی میں واقع ہیں، اس کے علاوہ سمانہ جو ایک تفریحی مقام ہے اور انگریزوں کے دور کا قلعہ بھی یہاں پر ہے، لوگ سیر و تفریح کے لیے دوسرے اضلاع سے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ڈبوری پہاڑوں کے درمیان ایک حسین اور دل فریب مقام اور بازار ہے ۔ اورکزئی ایجنسی کا ایک سیکشن بلند خیل ایجنسی سے کئی کلو میٹر دور ضلع ہنگو کے اس بار ٹل شہر کے جنوب میں واقع ہے، اس کے شمال اور مشرق میں ضلع ہنگو، مغرب میں کرم ایجنسی اور جنوب میں شمالی وزیرستان ایجنسی واقع ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔