جھوٹ، پھر جھوٹ اور مزید جھوٹ

سعد اللہ جان برق  جمعـء 30 نومبر 2018
barq@email.com

[email protected]

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ دل کڑا کرکے خلاف معمول، خلاف عادت اور خلاف نفع و نقصان سچ بول ہی دیا جائے۔ ستر سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا مذاق کرنے، جھوٹ بولنے اور یہاں وہاں کی ہانکنے کے لیے۔ اب یہاں عام صحافتی انداز میں بات کو ’’ہم‘‘ سے شروع کیا جانا چاہیے لیکن ہم نہ ہم کے عادی ہیں او نہ ہی کسی کو  بھیا کہنے کے روادار ہیں۔

سیدھا سیدھا ’’تم‘‘ کہتے ہیں کہ ’’تم‘‘ ہاں تم آخر کب اس جھوٹ منافقت سے ’’سچ‘‘ پھوٹو گے۔ ہمارا ایک دوست ایک اور دوست کی ’’عقل‘‘ کا ماتم کرتے ہوئے کہتا تھا کہ کتے کا پلا بھی چالیس دن میں آنکھیں کھول دیتا ہے لیکن تم چالیس سال کے ہو گئے اورپھر بھی تمہاری آنکھیں بند ہی بند ہیں، آخر کب کھولوگے، بڑھاپے میں یا مرنے کے بعد۔

اب یہ جو ہمارا  ’’تم‘‘ ہے اسے تو ستر سال ہو چلے ہیں۔ یہ بادشاہ، وہ بادشاہ، یہ موڑ اور وہ موڑ، یہ انقلاب اور وہ انقلاب، یہ تبدیلی وہ تبدیلی کا کھیل کھیلتے ہوئے آخر ایک کھیل ایک ڈرامے، ایک فلم، ایک کہانی کا لکھا تو ’’دی اینڈ‘‘ ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ وہ پرانے وقتوں کے انقلاب لانے والے قائد فلاں قائد فلاں تو یہی ہو گا ہو گی کرتے ہوئے تھے ہوگئے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مداری آتا گیا اور سانپ دکھانے کی امید دے کر اپنی دوائیاں بیچتا چلا گیا، جس سے افاقہ تو نہیں ہوا لیکن کچھ اور نئے امراض اس بدنصیب مریض کو لاحق ہوگئے جسے ہم نے  ’’تم‘‘ کہا ہے حالانکہ ’’تو‘‘ اور ابے تبے کہنا چاہیے۔

رنج کی جب گفتگو ہونے لگی

آپ سے تم، تم سے تو ہونے لگی

اور ہم کو بھی آج ’’رنج‘‘ ہی کی گفتگو کرنا چاہیے۔ بہت ہوگیا یہ آپ جناب کا ڈرامہ۔ کیا یہ جو ہوتا رہا ہے یا ہو رہا ہے اور یقینًا ہوتا بھی رہے گا، کیا اسے واقعی ہونا یا کرنا کہا جا سکتا ہے۔ کیا تم کولہو کے بیل ہو، بھینسا ہو یا کلے سے بندھی گائے۔ پوری دو نسلیں تو گزر گئیں لیکن اس فردوس گم گشتہ، اس سبز باغ ہندسوں سے گزرتی ہے سفر کرتی ہے لیکن کہیں بھی نہیں پہنچ رہی ہے۔

وہ بہت سارے ’’تم‘‘ جو گزر گئے وہ تو گزر گئے لیکن کیا یہ آنے والا ’’پل‘‘ ہمیشہ آنے والا ’’پل‘‘ ہی رہے گا، جانے والا پل کبھی نہیں بنے گا؟

ان گزرے ہوئے ستر سال پر مشتمل ’’پل‘‘ میں یا پل پل تل تل مارنے والے ستر ہزار ’’پل‘‘ گزر گئے۔ جس میں کیا کیا کچھ نہیں بیچا گیا۔ سادہ دل مسلمان بیچے گئے، اسلام بیچا گیا ، ملک اور ملکی سالمیت و یک جہتی بیچی گئی، روٹی کپڑا مکان بیچا گیا، جدید ایجاد شدہ اسلامی جمہوریت، بنیادی جمہوریت ، عوامی جمہوریت اور نہ جانے کیا کیا جمہورتیں بیچی گئیں۔ اور اب جب ایسا کچھ باقی نہیں رہ گیا تو ’’پرانے‘‘ کی جگہ ’’نیا‘‘ بیچا گیا ۔ ہاں وہ مسماۃ بھی، جو سلامتی اور یکجہتی کی بھانجیاں بھتیجاں لگتی ہیں۔خوشحالی، روشن خیالی، مہاکالی اور اس کے بعد اب تبدیلی اور انصاف کی باری ہے، مجال ہے اس عرصے میں کسی بھی منہ سے کسی بھی زبان سے یا بیان سے کوئی سچ نکلا ہو، جھوٹ جھوٹ جھوٹ اور جھوٹ ہی جھوٹ۔ شاعر و صورت گروافسانہ نویس جھوٹ سناتے رہے، بولتے رہے،پہنتے رہے اوڑھتے اوڑ ھاتے رہے، نہلاتے دھوتے اور نچوڑتے رہے۔

اور حیرت تو یہ کہ کسی کو ذرا بھی شرم جھجھک نہیں آئی۔ کہ ہر جھوٹ کا ساتھ بڑے دھڑلے اور بے شرمی سے دیتے رہے اور اب بھی وہی حال ہے۔ کیا یہ جو ہو رہا ہے؟ اس پر ’’تم‘‘کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر بلکہ چلو بھر قرض میں ڈوب کر مر نہیں جانا چاہیے تھا کہ کہنے کو چاند میری زمین پھول میرا وطن۔ میری مٹی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی کہتے رہے اور چوغے میں کشکول ڈالے ہر ایک دروازے پر کھڑے رہے۔ وہ انگریزوں سے ’’بچایا ہوا‘‘ بھی ہڑپ کر گئے۔ زرخیر زمین اور زرخیز کھیت بھی کھا گئے۔

کچھ باقی بچا تو رسوائی ہی رسوائی۔ اور تم چپ ہی رہے۔ بلکہ اگر چپ رہتے تو بھی اچھا ہوتا لیکن تمہارے زبان دراز اور قلم طراز تو اندھیرے کو اجالا ،سیاہ کو سفید اور سچ کو جھوٹ بنانے میں کار ثواب کی طرح لگے رہے۔

کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ’’بول کہ لب آزاد ہیں ترے‘‘ کا غلغلہ اٹھے۔ یہ کیا ہو رہا ہے تم دیکھ رہے ہو۔ یا اندھے ہو روز بروز نئی نئی خرابیاں نئی نئی محرومیاں ناکامیاں اور رسوائیاں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ’’تم‘‘ اب بھی یہ سمجھ رہے ہو کہ سود پر رقم لے کر شادی کرو گے، پھر ایک بیٹا جنو گے اور تمہارا وہ بیٹا سکندر بن کر دنیا کو فتح کر لے گا۔ ایسے ’’بھائیوں‘‘ کی تو تم نے بہت شادیاں کروائیں اور وہ اپنی اپنی بہوؤں کو لے کر دیار غیر میں جا بسے، تمہارے گھر کے سارے اندوختے کو پوٹلی میں باندھ کر سب جھوٹ بولتے رہے، سیاست جھوٹ رہی ہے، تجارت جھوٹ رہی ہے حتیٰ کہ یہاں کا مقامی انڈسٹریل اور کمرشل لیڈر بھی جھوٹ بول رہا ہے، جمہوریت بھی جھوٹ، انصاف بھی جھوٹ، نیا پاکستان بھی جھوٹ، تبدیلی بھی جھوٹ، مرکز بھی جھوٹ صوبے بھی جھوٹ، ضلعے اور تحصیل یہاں تک کہ تھانے بھی جھوٹ، یونین بھی جھوٹ ، مدرسہ بھی، جھوٹ انگلش میڈیم بھی جھوٹ او اردو میڈیم تو پیدائشی جھوٹ۔

ایک پشتو کہاوت کے مطابق ’’صاف‘‘پانی ڈھونڈو گے تو پیاسے مر جاؤ گے۔

یہ کیسی تبدیلی ہے، پردے بھی وہی پرانے،  قبرستان بھی پرانا، گورکن بھی پرانا، قبر بھی پرانی اور مٹی بھی پرانی ۔کیا ’’بلیوں‘‘ کے تبادلے سے گوشت بچ جائے گا ۔

جب حضرت تبدیلی اور نیا پاکستان والی سرکار نے نعرہ لگایا تھا کہ ہم نوے دن میں نیا نکور پاکستان دے دیں گے، کیا وہ ان ہی پرانے معماروں، پرانی اینٹوں اور پرانے گارے سے نیا پاکستان بنائیں گے۔ اگر وہی پرانا کشکول اٹھا کر اپنے دروازوں پر صدا بلند کرنا تھی تو پرانے بھکاری ہی بہتر تھے کہ کچھ کچھ تو ان کی پیٹ بھر چکا تھا۔ اس پورے ملک میں ’’چہروں‘‘ کے سوا کوئی نئی چیز دکھا سکتا ہے؟

تبدیلی یہ ہوتی کہ پہلے ہی دن اعلان کر دیا جاتا کہ آج سے لاکھوں تنخواہیں پانے والے آدھی تنخوالیں گے، انصاف دار جو انصاف کرنے آئے ہیں ان سے کہا جاتا کہ انصاف بیچو مت بلا معاوضہ کرو۔ تم کسی دھنوان سیٹھ ساہو کار کے ہاں نوکری کرنے نہیں آئے ہو، لٹے پٹے پاکستان کی تعمیر اور لٹے پٹے عوام کی خدمت کرنے آئے ہو ، اگر تنخواہ اور معاوضوں پر خدمت اور انصاف ہی کرنا ہے تو کہیں باہر سے کیوں نہ خدمت گار اور انصاف دار لائے جائیں ۔ہنگامی اور بحرانی حالت میں لوگ پیٹ پر پتھر باندھتے ہیں لیکن پیٹ صرف عوام کے نہیں ہوتے جو پہلے ہی کمر کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، موٹے پیٹوں پر چلیے پتھرنہ باندھیے لیکن کچھ تو باندھیے اگر ایک آدھی تنخواہ کی قربانی دیدیں تو ؟ نیا پاکستان سامنے ہی موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔