چیف جسٹس صاحب توجہ فرمائیے

خبر خواہ وہ کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو اگر بڑی سرخی کے ساتھ شایع نہ ہو تو کسی کی نظر سے نہیں گزرتی۔


Zaheer Akhter Bedari December 01, 2018
[email protected]

اب مواصلات کا شعبہ اتنی ترقی کرچکا ہے کہ منٹوں سیکنڈوں میں دنیا کے ایک سرے کی خبر دنیا کے دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے اور مظلوموں کی اس قدر بہتات ہے کہ اللہ کی پناہ، مظلوموں کی مدد کو آگے بڑھیں تو مسائل کے انبار میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

ملک کے ہر مظلوم کی نظریں چیف جسٹس ہی کی طرف اٹھتی ہیں۔ ایسے ہی مظلومین میں کورنگی کے وہ ریٹائرڈ اساتذہ ہیں جو تین تین چار چار سال سے اپنے واجبات اور پنشن کے لیے ممکنہ طور پر انصاف ملنے کے امکان کا ہر دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ یہ صورتحال زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے اور پاکستان حیرت سے قائد اعظم کی طرف دیکھ رہا ہے کہ آپ نے تو دنیا کے نقشے پر ایک ملک پاکستان بنایا تھا وہ مسائلستان کیوں بن گیا؟

ڈسٹرکٹ کورنگی کے ریٹائرڈ اساتذہ تین چار سال ہوئے اپنی پنشن اور زندگی بھر کی محنت کا صلہ واجبات جو ان کا حق ہے کے حصول کے لیے در در مارے مارے پھر رہے ہیں ، لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ہی ملک کے دوسرے محکموں میں یہ بد انتظامی موجود نہیں بلکہ یہاں ملازم کے ریٹائرڈ ہونے سے مہینہ پہلے ہی ریٹائرڈ ملازم کی پوری کاغذی کارروائی مکمل کرلی جاتی ہے۔ جیسے ہی کوئی ملازم ریٹائر ہوتا ہے اس کی پنشن جاری ہو جاتی ہے اور واجبات ادا کردیے جاتے ہیں۔

اساتذہ ایک معزز پیشے سے تعلق رکھتے ہیں، نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ان کی ذمے داری ہوتی ہے اور 40-40 سال سے اس شعبے میں خدمات انجام دینے کے بعد اپنے واجبات کی امید پر کوئی عمرہ کرنے کی تیاری میں لگ جاتا ہے تو کوئی حج کی سعادت حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے کوئی اپنی بیٹی کی سیج سجانے میں منہمک ہوجاتا ہے تو کوئی اپنے بیٹے کا سہرا دیکھنے کی آرزو میں ایک ایک دن گنتا رہتا ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کچھ ریٹائرڈ ملازمین اور اساتذہ نے واجبات کی امید میں اپنی اولاد کے لیے شادی ہال بک کرا لیے تھے جو بروقت واجبات نہ ملنے کی وجہ کینسل کردیے گئے اور ان کے ایڈوانس کی رقم بھی ڈوب گئی کچھ پنشن اور واجبات کی وصولی کی امید لیے اس دنیا سے ہی رخصت ہوگئے۔

چیف جسٹس صاحب!ملک میں سیکڑوں اخبارات چھپتے ہیں جن میں ہزاروں اہم خبریں اور کالم چھپتے ہیں ان سب کا مطالعہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں اگرکسی اخبار میں کوئی خبر ہائی لائٹ ہو تو اس پر نظر چلی جاتی ہے ورنہ ساری اہم اور غیر اہم خبریں اخبارات کے ساتھ ردی میں چلی جاتی ہیں۔ خبر خواہ وہ کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو اگر بڑی سرخی کے ساتھ شایع نہ ہو تو کسی کی نظر سے نہیں گزرتی۔

ابھی پچھلے دنوں کورنگی کے ریٹائرڈ اساتذہ نے واجبات اور ٹائم اسکیل کے لیے شہر کی سڑکوں پر مظاہرے کیے جن کی خبریں تقاریر کے ساتھ اخباروں کی زینت بنیں ،کچھ دن بعد اس حوالے سے ایک خبر چھپی کہ کچھ اساتذہ کے ٹائم اسکیل منظور کرلیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ابھی سیکڑوں اساتذہ ٹائم اسکیل اور واجبات کی آس لگائے بیٹھے ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی کام میرٹ پر نہیں ہوتا۔ مستحق لوگ سڑکوں پر رلتے رہتے ہیں۔ اس بدنظمی وغیرہ کو سادہ لوح لوگ ''قسمت کی بات'' کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ اب اس اندھے کی لاٹھی کا کھیل ختم ہونا چاہیے جو ملازمین اپنی زندگی کے چالیس سال بچوں کی تعلیم و تربیت جیسی اہم قومی ذمے داری ادا کرتے رہے ہیں ان کے کام ترجیحی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ لیکن اس سر سے لے کر پیر تک کرپٹ ملک میں یہ ہوگا کیسے؟

ہمارے محترم چیف جسٹس بہت کوشش کر رہے ہیں کہ مظلوموں کو انصاف ملے لیکن جب تک اس حوالے سے کوئی واضح سسٹم کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی جاتی اس مملکت خداداد میں ہر ضرورت مند کو قسمت کی دیوی کا انتظار کرنا پڑے گا اور سڑکوں اور دفاتر میں خوار ہونا پڑے گا۔چیف جسٹس انصاف کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور واجبات کا ہر ملک ہی میں نہیں ہمارے ملک کے بعض شعبوں میں بھی بروقت ادائیگی کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ محکمہ تعلیم ہمیشہ لاوارثوں کا محکمہ ہی رہا ہے۔

ہر محکمے پر یہ الزام عام ہے کہ یہاں رشوت کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس سے کس قسم کا جرمانہ لیا جاتا ہے جب کوئی کام رشوت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تو رشوت کو جائز قرار دے کر اس کے ریٹ مقرر کردیے جانے چاہئیں تاکہ نہ دینے والے کو تکلیف ہو نہ لینے والے کو زحمت اٹھانی پڑے۔ ریٹ کارڈ پبلک کی سہولت کے لیے ہر سرکاری آفس کے گیٹ پر لگا دیا جائے اور رشوت وصول کرنے والے کا ایک کمرہ مختص کردیا جائے۔ اس قسم کی دل جلی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے کیونکہ چار سال سے ریٹائرڈ ملازمین در در بھٹک رہے ہیں اور ہر طرف انھیں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔

مقبول خبریں