جنوبی پنجاب میں تین دن

امجد اسلام امجد  جمعرات 6 دسمبر 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

اب جب کہ جنوبی پنجاب کے انتظامی طور پر ایک علیحدہ صوبہ بننے کی افواہیں ’’خبر‘‘ کے درجے کو پہنچ رہی ہیں اپنے پیارے وطن اور اس کے مزید پیارے صوبہ پنجاب کو ایک نئی شکل میں دیکھنے کا تصور بیک وقت دلچسپ بھی ہے اور دلکش بھی کہ مدتوں سے یہ معاملہ گھٹیا درجے کی ذاتیات پر مبنی سیاست کا محور بنا چلا آرہا ہے اور یوں خواہ مخواہ کی بے معنی اور خود ساختہ قسم کی تلخیوں کی ایک فضا ون یونٹ کے زمانے سے ہمارے ساتھ چل رہی ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ حکومت کی مخالف سیاسی پارٹیاں کم از کم اس مسئلے پر سودے بازی نہیں کریں گی۔ ان کے عدم تعاون کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اپنے موجودہ دور حکومت میں اس انتخابی وعدے کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن عملی طور پر یہ ہم سب کی مشترکہ ناکامی ہوگی کہ اس کا نقصان پورے پاکستان کو ہوگا۔

اس معاملے بلکہ مسئلے کا ذکر اس لیے ضروری ٹھہرا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مجھے دو بار جنوبی پنجاب میں جانے اور وہاں تین دن گزارنے کا موقع ملا ہے اور جتنی محبت میں نے اور میرے ساتھیوں سے وصول کی ہے اس کی خوشگوار یادیں اس بات کی متقاضی تھیں کہ محبت کے اس زمزم کو بہنے کے لیے ایک مستقل راستہ دیا جائے کہ اسی میں ہم سب کی بقا ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ کالج بہاولنگر اور خواجہ فرید یونیورسٹی آف مینجمنٹ اور آئی ٹی کی طرف سے دو علیحدہ علیحدہ تقریبات کے لیے کئی مہینوں سے بات چل رہی تھی کہ دونوں جگہ مشاعروں کا اہتمام کیا جارہا تھا جو بوجوہ بار بار التوا کا شکار ہوتا چلا آرہا تھا۔

بہاولنگر کے ساتھ میری 25 سال قبل کی بہت سی خوشگوار اور پر لطف یادیں وابستہ ہیں کہ 1993ء میں میرے عزیز ترین دوستوں میں ایک یعنی شمیم اختر سیفی مرحوم نے جو وہاں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات ہوا تھا ایک ساتھ تین تقریبات کا اہتمام کیا جن میں سے ایک میرے ساتھ شام، دوسری آل پاکستان مشاعرہ اور تیسری عابدہ پروین کی محفل موسیقی تھی۔ تینوں تقریبات اپنے حسن انتظام اور جذبۂ محبت کی وجہ سے بہت کامیاب رہیں اور ان کی بازگشت آج بھی ہمارے اور اہل بہاولنگر کے دلوں میں زندہ اور تازہ ہے۔

میزبانوں نے گزرتے ہوئے ڈی سی ہاؤس اور اس کے ساتھ ملحقہ اس وقت کی جلسہ گاہ کی نشاندہی کی تو ایک دم اس احساس نے قلب و جاں کو گھیرے میں لے لیا کہ اس تقریب کے ساتھیوں میں سے خود ناظم تقریب شمیم اختر سمیت اب احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، پروین شاکر اور دلدار پرویز بھٹی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج پروفیسر شفیق صاحب، ڈاکٹر عامر سہیل اور اعجاز ثاقب سمیت کئی دوستوں کو ان محفلوں کے واقعات یاد تھے۔

معلوم ہوا کہ اپنی موجودہ شکل میں یہ کالج تقریباً 50 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور گزشتہ پانچ برس میں نہ صرف اس کے طلبہ کی تعداد چار گنا بڑھ چکی ہے بلکہ یہ پنجاب کی 9 ڈویژنز میں سے واحد سرکاری کالج ہے جس کے طلبہ نے امتحانات میں سب سے زیادہ پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔ میں نے کانووکیشنز یا اعلیٰ حکومتی افسران کی موجودگی میں ہونے والی تقریبات میں تو پرنسپل حضرات کو بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے دیکھا ہے مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے گزشتہ تیس برس میں پروفیسر شفیق کی طرح کسی پرنسپل کو مشاعرے کے سلسلے میں اس قدر سرگرم پایا ہو۔

مشاعرہ گاہ میں حقیقتاً تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور اطلاعات کے مطابق سیکڑوں طلبہ باہر گیٹ پر بھی داخلے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ایسے پرجوش سامعین اتنی بڑی تعداد میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ رحیم یار خان سے آئے ہوئے نوجوان عمیر نجمی کو ایک بار پھر سن کر خوشی ہوئی کہ نہ صرف وہ تیزی سے مقبولیت کی منزلیں طے کررہا ہے بلکہ اس کی شاعری میں بھی مسلسل نکھار آتا چلا جارہا ہے۔ سامعین نے اس کے ساتھ ساتھ تمام شعراء کے اچھے اشعار پر دل کھول کر داد دی جو اس اعتبار سے بہت خوش کن تھی کہ کتاب اور ادب سے نام نہاد دوری کے اس دور میں بھی تمام تر مسائل کے باوجود اور ادبی مراکز سے اتنے فاصلے کے باوصف ہماری نوجوان نسل میں اب بھی شعر و ادب سے اس قدر وابستگی اور دلچسپی پائی جاتی ہے۔

رحیم یار خان کی خواجہ فرید یونیورسٹی کو بنے ابھی صرف چار برس ہوئے ہیں۔ یہ خالص سائنسی علوم اور آئی ٹی کی یونیورسٹی ہے مگر اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب شعبہ طلبہ کے انچارج ڈاکٹر ثنا اللہ اور تمام فیکلٹی ممبران کو سماجی سائنسوں سے متعلق علوم اور شعر و ادب کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا کہ انھوں نے اتنے کم عرصے میں کتاب میلے اور مشاعرے کو اپنے سالانہ کیلنڈر کا مستقل اور اہم حصہ بنا دیا ہے۔ مشاعرے کے مہمانان خصوصی میں اور انور مسعود تھے مگر عین آخری لمحات میں لاہور سے پی آئی اے کی پرواز کی اچانک اور پراسرار منسوخی اور انور مسعود سے رابطے کی کمی کے باعث ایسی صورتحال بن گئی کہ ہم دونوں کا پہنچنا تقریباً ناممکن ہو گیا جس کی وجہ سے ٹیلفونی رابطے کے دوران منتظمین کی پریشانی باقاعدہ نظر آنا شروع ہو گئی ۔

سو مجبوراً مجھے ٹرین کے سفر کا سہارا لینا پڑا کہ اس کے علاوہ وہاں وقت پر پہنچنے کا کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ شیخ رشید کے محکمے کے باقی افسران کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن تعلقات عامہ کی ڈائریکٹر قرۃ العین فاطمہ اور ریلوے پولیس کے ڈی آئی جی برادرم شارق جمال نے جس طرح سے اس سفر کو میرے لیے آسان اور آرام دہ بنایا اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔6سیٹوں والے کمپارٹمنٹ میں لاہور سے میرے ہم سفر مریدکے سے تعلق رکھنے والے ایک میاں بیوی تھے جو کسی سلسلے میں اپنے پیر صاحب سے ملنے کے لیے کراچی جا رہے تھے۔ بہت سادے اور محبت والے لوگ تھے جو سارا راستہ اس بات پر پہلے پریشان اور پھر خوش ہوتے رہے کہ ہر اسٹیشن پر ریلوے اور پولیس کے عملے کے کچھ لوگ خیر و عافیت اور سلام دعا کے لیے آجاتے تھے۔ جب کہ رحیم یار خان ریلوے اسٹیشن پر تو باقاعدہ پولیس کا ایک دستہ استقبال کے لیے موجود تھا جس کی سب سے زیادہ پریشانی میزبانوں میں سے پروفیسر عمران بشیر کو تھی کہ کہیں یہ لوگ کسی اور غرض سے نہ آئے ہوں۔

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اور ان کی بیگم نے پر خلوص میزبانی کے کچھ ایسے ریکارڈ قائم کیے جن کا بقول انور مسعود ٹوٹنا تقریباً ناممکن ہے۔ ان سے یونیورسٹی کی مختصر تاریخ‘ کارکردگی اور تعمیر کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں علم ہوا مگر اس قدر کم عرصے میں پانچ ہزار کے قریب طلبہ کو اعلیٰ ترین تعلیم اتنی کم فیس پر مہیا کرنا بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔ یہاں بھی سامعین کا ذوق و شوق قابل دید تھا جس سے میرے اس یقین کو مزید تقویت ملی کہ اگر ہمارے نظام تعلیم میں پرائمری سطح پر بچوں کو اردو رسم الخط سے اچھی طرح سے بہرہ ور کر دیا جائے تو نہ کتاب کو کوئی خطرہ ہے اور نہ مشاعرے کو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔