کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
میڈیاکو چاہیے کہ ملک کے طبقاتی نظام اور اس نظام میں غریب عوام پر ہونے والے مظالم کو زیادہ سے زیادہ دکھائے۔
ساری دنیا میں میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ طبقاتی معاشرے میں بھی میڈیا نے مقدور بھرکوشش کرکے طاقتورطبقات کو لکارا ہے۔ اصولی طور پر تو طبقاتی فرق کو ایک طرف رکھ کر محمود و ایاز کو میڈیا میں ایک جیسی حیثیت اور کوریج دی جانی چاہیے ؟
بہرحال ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے، اگر کوئی ایسی باتپتہ چلتی ہے جس میں حکومت وقت کی طرف سے خبروں پر پابندی یا سنسر کا ارادہ بھی ظاہر کیا گیا ہے تو ہمارا میڈیا اس کی مزاحمت کرتا ہے۔ میڈیا ترقی یافتہ دنیا میں بھی آزاد ہے بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی آزاد ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی میڈیا کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سرمایہ دار نظام ہی کنٹرول کرتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بائی پروڈکٹ طبقاتی نظام میں میڈیا کسی حد تک سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کو بے نقاب بھی کرتا ہے۔
طبقاتی نظام کا مطلب غریب اور امیر طبقات ہوتے ہیں۔ غریب طبقات کی تعداد 90 فیصد کے لگ بھگ ہوتی ہے، امیر مشکل سے دو فیصد ہوتے ہیں لیکن دو فیصد 80 فیصد قومی دولت پر قابض ہوتا ہے جس کا ہر روز روزِ عید اور ہر شب شب برأت ہوتی ہے۔ غریب دن بھر محنت کرتا ہے تو اسے مشکل سے روٹی دال ملتی ہے۔ کیا میڈیا اس 2/98 کی ظالمانہ تقسیم کو ہائی لائٹ کرتا ہے؟ اور ظالم و مظلوم میں مظلوم کا ساتھ دیتا ہے۔ کیا میڈیا کا یہ کام نہیں کہ اس ظالمانہ غیر منصفانہ نظام زر کے محافظوں کو عوام سے روشناس کرائے۔ میڈیا سمیت مختلف اداروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ قابل لوگوں کی کمی نہیں لیکنان میں سے کئی حاشیے پر کھڑے ایک مصائب سے پُر زندگی گزار رہے ہیں ۔
بیشتر لوگ ملازمت میں عمر گزارانے والے آج بھی ہنڈا 70 پر ہی آتے جاتے ہیں ۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا کھیل ہے۔ ہماری سابق حکومت نے مزدور کی تنخواہ پندرہ ہزار مقرر کی۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ہمارے خداداد ملک میں یہ تنخواہ مزدوروں کو ملتی ہے۔ یہی حال شعبہ صحافت کا بھی ہے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی مزدور سے کم تنخواہ لے رہے ہیں؟ اسی طرح بے شمار سینئر صحافی ہیں جو عشروں سے کام کر رہے ہیں لیکن بسوں میں ویگنوں میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ کیا یہ ناانصافی ہے؟ ہے تو اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟
یہ 1970 کی بات ہے راقم الحروف ایم اے جرنلزم، ایم اے سیاسیات کو ایک ہڑتال میں شامل ہونے اور توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں 6 مہینے کی قید بامشقت سنائی گئی۔ ہمارے ساتھیوں میں سب ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے، سب کو مختلف سزاؤں سے نوازا گیا۔ اور جیل کے گندے وارڈز میں دھکیل دیا گیا۔گندے ''بستر'' جوؤں اور کھٹملوں سے اٹے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں ایریٹیریا (افریقہ) کے تین کمانڈو حبشہ کے ہوائی جہاز پر حملہ کرنے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے، ان میں دو مسلمان علی اور محمد تھے، ایک عیسائی ابرہا تھا، انھیں بی کلاس دی گئی تھی۔ ہماری ان لوگوں سے دوستی ہوگئی، یوں ہمارا اور ہمارے دوستوں کا زیادہ وقت ان ایریٹیرین قیدیوں کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔
آج کل ہمارے بہت سارے وزرا وزرائے اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم مختلف الزامات کے تحت جو اربوں کی کرپشن سے کم نہیں ''جیلوں'' میں ہیں ۔ ایک سابق وزیر محترم پر پونے چھ ارب کی کرپشن کا الزام ہے اور ان کے بارے میں ہمارے چیف جسٹس نے بتایا ہے کہ وہ اسپتال کے جس کمرے میں قید ہیں وہ کمرہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرے سے زیادہ شاندار ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے فرمایا میں یہ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک اور وزیر صاحب پر 462 ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے، وہ شریف آدمی اپنے علاج اور تشخیص کے لیے عموماً ملک سے باہر رہتے ہیں۔
میڈیاکو چاہیے کہ ملک کے طبقاتی نظام اور اس نظام میں غریب عوام پر ہونے والے مظالم کو زیادہ سے زیادہ دکھائے، ایک ارب پتی کے ڈائننگ ہال، بیڈ روم، ڈرائنگ روم کی جھلکیاں بھی دکھائے اور ایک مزدور ایک کسان کے ڈائننگ ہال، بیڈ روم اور ''ڈرائنگ روم'' کی جھلکیاں بھی عوام کے سامنے پیش کرے اور اس پر آزاد صحافیوں کے تبصرے بھی پیش کرے۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کا تعلیمی ماحول بھی پیش کرے ، فائیو اسٹار اسکولوں کی چمک دمک بھی عوام کے سامنے پیش کرے۔ جو محترمین نوے فیصد غریبوں کی بھوک بیماری بے کاری کو اللہ کی مرضی اور قسمت کا لکھا کہتے ہیں وہ اکابرین غریبوں کے دلوں میں سلگتی ہوئی آگ پر متبرک پانی چھڑکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو سرمایہ داروں جاگیرداروں کے ایجنٹ ہیں باقی وہ سادہ لوح ہیں جو لاعملی میںجاگیرداروں، سرمایہ داروں، زرداروں اور اعلیٰ قسم کے شریفوں کی حمایت کرتے ہیں۔
عمران خان آپ تحریک انصاف کے قائد ہیں، عوام آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی پارٹی آج کل آپ کی حکومت بے رحمی سے تجاوزات کو گرا رہی ہے، اس بے ہنگم تعمیرات سے شہر کی جو خوبصورتی ختم ہو رہی تھی، اس اربوں روپوں کی ناجائز تعمیرات کو بھی آپ بلڈوز کراسکیں گے جن کا پتا آپ کی حکومت چلا رہی ہے۔