سگریٹ پر گناہ ٹیکس مگر شراب کے خلاف کچھ نہیں

محمد عمیر دبیر  جمعرات 13 دسمبر 2018
رمیش کمار نے شراب لائسنس کے حوالے سے آئین میں ترمیم کی قرار داد پیش کی جس کا فواد چوہدری نے مذاق اڑایا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

رمیش کمار نے شراب لائسنس کے حوالے سے آئین میں ترمیم کی قرار داد پیش کی جس کا فواد چوہدری نے مذاق اڑایا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

حکومت نے سگریٹ نوشی کم کرنے کے لیے کچھ دنوں قبل یورپی ممالک کی طرز پر ایک ٹیکس متعارف کرانے کا اعلان کیا جسے ’گناہ ٹیکس‘ کا نام دیا گیا، اس حوالے سے کام مکمل ہوچکا اور دستاویزات کابینہ کو ارسال کردیے گئے ہیں جسے ممکنہ طور پر آئندہ ہونے والے اجلاس میں منظور کردیا جائے گا۔

گناہ ٹیکس عائد ہونے کے بعد سگریٹ کے فی پیکٹ قیمت میں دس روپے کا اضافہ ہوگا۔ حکومتی شخصیات کا ماننا ہے کہ غریب آدمی ویسے سگریٹ نہیں پیتا، اور جو پیتے ہیں وہ خود ہی ٹیکس دیں گے۔ اس ٹیکس کے نفاذ کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ بڑھتی ہوئی تمباکو نوشی کو روکا جاسکے۔

حکومت کے اس اقدام کی میں نے بالکل اُسی طرح تعریف کی جیسے عمران خان کی دھرنا مظاہرین کو وارننگ، پھر آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا دوٹوک اعلان، پھر امریکا کو آنکھیں دکھانے پر ڈٹ جانا۔

مگر میں اس مخمصے میں تھا کہ اب کچھ ایسا نہ ہوجائے جس پر مجھے شرمندگی ہو۔ کیونکہ حکومت یا کابینہ اراکین کو تو ہوتی نہیں، اور وہ کوئی نہ کوئی زبردست دلیل جسیے انگریزی میں لاجک کہتے ہیں پیش کردیتے ہیں۔

ابھی اس خیال کا رجحان کم ہی ہوا تھا کہ تین روز قبل قومی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے شراب کے لائسنس جاری کرنے کے حوالے سے آئین کی شق میں ترمیم کی قرار داد پیش کی۔

ظاہر ہے، جو حکومت سگریٹ نوشی کو گناہ سمجھتی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کررہی ہے، اُس نے یہ قرار داد منظور کردی ہوگی؛ مگر ایسا نہ ہوا۔ اور وہی کچھ ہوا جو کپتان کے وزیراعظم بننے کے بعد ہوا۔

اسمبلی میں قرارداد مسترد ہوگئی۔ چلیں جناب! یہ تو اراکین کی اپنی صوابدید تھی۔ مگر وفاقی وزیراطلاعات نے اس قرار داد پر جو تاریخی الفاظ ادا کیے، اُن کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ جناب فواد چوہدری کا خیال ہے کہ ’’رمیش کمار نے یہ قرارداد سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے پیش کی، کیونکہ جن لوگوں کو شراب نوشی کرنی ہے وہ پابندی کے باوجود بھی کرتے رہیں گے۔‘‘

حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کسی چیز پر گناہ ٹیکس لگا کر یا کسی چیز کی قرارداد مسترد کر کے لوگوں کو روکا نہیں جاسکتا، کیونکہ جنہیں سگریٹ پینی ہے، وہ لفظ گناہ کی وجہ سے نہیں رکیں گے۔ اور جو شراب نوش ہیں، وہ مہنگی خرید کر بھی اسے گھر تک منگوا سکتے ہیں۔

اصل مسئلہ پابندی یا چھوٹ کا نہیں، بلکہ معاشرتی اقدار کا ہے۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، وہ بہت زیادہ تشویشناک ہے۔ ہر شخص موقع پر بغیر سوچے اور تمیز کے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جسے ہم دیکھتے بھی آئے ہیں۔

جیسے کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نوٹس جب دکانداروں کو موصول ہوا تو مالکان نے زیادہ تباہی سے بچنے کے لیے ویلڈرز اور لوہاروں کی خدمات حاصل کیں۔ انہوں نے اپنے ریٹ بڑھا دیے۔ تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب کا انتقال ہوا تو رش کا فائدہ اٹھانے کے لیے ائیرلائن نے 26 ہزار والے ٹکٹ کو چالیس ہزار کی قیمت میں فروخت کیا۔

ایسے معاشروں میں رہنے والے لوگوں کو گناہ کے نام سے کوئی غرض نہیں۔ جہاں آپ لوگوں کو بنیادی سہولیات نہ دیں، جو وزیراعظم جھوٹ بولنے یا یوٹرن لینے والے شخص کو بڑا لیڈر قرار دے، جس کابینہ کے سربراہ کے دائیں بائیں اور اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھے اراکین پر کرپشن کے الزامات ہوں ، اُن کے اس طرح کے اقدامات معاشرے کو کبھی سدھار نہیں سکتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔