عوام کا سوال

بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں اشرافیہ کے خلاف پہلی بار یہ احتسابی کارروائی ہو رہی ہے۔


Zaheer Akhter Bedari December 15, 2018
[email protected]

بعض دوستوں کو حیرت ہے کہ بعض ترقی پسند حلقوں کی جانب سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟ اس حوالے سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان انقلابی ہے؟ کیا عمران خان پاکستان میں انقلاب لاسکتا ہے؟ یہ سوال بالکل بجا ہے۔

عمران خان نہ انقلابی ہے نہ وہ پاکستان میں عوامی انقلاب لاسکتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر سوال کرنے والے حلقوں کا سوال بجا ہے۔ لیکن اسی حوالے سے عرض ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو ڈرامہ چل رہا ہے اس کی ڈائریکٹر پاکستان کی اشرافیہ ہے اور اداکار بھی وہی ہے۔ جمہوریت عوام سے پہچانی جاتی ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت کے یہ دو کردار آگ اور پانی بنے ہوئے ہیں عوام کی حالت سیاسی ہرنوں جیسی بنا کر رکھی گئی ہے۔ پاکستانی سیاست ایسی کچرا کنڈی بنی ہوئی ہے یا بنا کر رکھ دی گئی ہے کہ بس غلاظت کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔

پاکستان میں بایاں بازو اگرچہ انقلاب کا دعویدار ہے انقلاب عوام لاتے ہیں البتہ انقلاب کی قیادت انقلابی رہنما، انقلابی پارٹیاں کرتی ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں نہ کوئی انقلابی پارٹی رہی ہے نہ انقلابی رہنما۔ نیشنل عوامی پارٹی بائیں بازو میں انقلاب کی داعی جماعت کے طور پر پہچانی جاتی تھی لیکن روس چین کے اختلافات اور آپس کی گروہ بندی نے اس پارٹی کو جو ماضی میں فعال تھی جمود کا شکار بنا کر رکھ دیا۔ان مایوس کن حالات میں جب کہ عوام نہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی کر پا رہے تھے نہ انقلاب کی طرف تو نیپ کے رہنماؤں نے 1967 (غالباً) میں ایک اجلاس بلایا جس میں چیدہ چیدہ دوستوں کو مدعو کیا گیا یہ اجلاس سینئر رہنما اور مارکسٹ دانشور عبدالمطلبی فرید آبادی کی رہائش ماڈل ٹاؤن میں بلایا گیا جس میں کراچی کے اور دوستوں کے ساتھ ہم بھی شامل تھے۔

اس اجلاس میں 1947 سے 1967 تک کے سیاسی حالات اور سیاستدانوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل عوامی پارٹی سیاسی ابتری کو ختم کرنے اور بائیں بازو کو جمود اور انتشار سے نکالنے کے لیے نیشنل عوامی پارٹی کا نام عوامی نیشنل پارٹی رکھ دیا۔ اس پارٹی کا اصل مقصد عوام کو سیاسی طور پر متحرک کرنا تھا سو اس حوالے سے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں بڑھا دی گئیں۔

جمہوریت میں جب تک عوام فعال نہ ہوں اور پارٹیوں پر ان کی بالادستی قائم نہ ہو جمہوریت لائی جاسکتی ہے نہ جمہوریت کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے خاص طور پر مزدوروں اور کسانوں کو متحرک کیے بغیر جمہوریت کی گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے نہ جمہوریت کے سر سے اشرافیہ کے منحوس سائے کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ کراچی میں مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے لیبر آرگنائزنگ کمیٹی بنائی گئی سائٹ میں پہلے ہی سے متحدہ مزدور فیڈریشن موجود تھی مزدوروں کی ان دونوں جماعتوں کی قیادت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھی۔

لانڈھی میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی اس قدر مقبول ہوئی کہ ایک ایک کرکے تمام مزدور تنظیمیں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی اور متحدہ مزدور فیڈریشن کے پلیٹ فارم پرآگئیں اور مزدور طبقات ان دونوں جماعتوں پر بھرپور اعتماد کرتے تھے۔

مزدوروں میں بھرپور انقلابی جوش و جذبہ موجود تھا اس دور میں مزدور تنظیموں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی سیاسی تنظیمیں بھی فعال تھیں کسان کانفرنسیں اور مزدور کانفرنسوں کے ذریعے پاکستان میں بچھڑے ہوئے مزدور اور کسان طبقات میں خود اعتمادی پیدا کی گئی مزدوروں کی قوت کا عالم یہ تھا کہ مالکان اپنی ملوں کارخانوں میں آنے سے خوفزدہ رہتے تھے ٹریڈ یونین رہنماؤں سے پیشگی اجازت لیے بغیر وہ ملوں میں نہیں آسکتے تھے۔

ہم بات کر رہے تھے عمران خان اور ان کی سیاست کی۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ سیاست سے اشرافیہ کو نکالے بغیر ہمارے ملک میں نہ سیاست عوامی بن سکتی ہے نہ عوام بالادست ہوسکتے ہیں ان دو مضبوط طبقات سے چھٹکارا پائے بغیر جمہوریت کا ہمارے ملک میں نہ کوئی سیاسی مستقبل ہے نہ عوام کی بالادستی کی کوئی امید۔ کرپشن ہماری معیشت کو تباہی کے آخری کنارے پر پہنچا رہی ہے، کرپشن کے خلاف جب سے سخت کارروائیاں ہو رہی ہیں جمہوریت سے گند صاف ہو رہا ہے اربوں کھربوں کی کرپشن سامنے آرہی ہے۔

اور کرپٹ قیادت قانون کی گرفت میں آرہی ہے عوام کرپشن کے خلاف لگاتار کارروائیوں سے مطمئن اور خوش تو ہیں اور اس اقدام سے بھی خوش بڑے بڑے اعلیٰ نسل کے مگرمچھوں کے خلاف پہلی بار ایکشن لیا جا رہا ہے۔

بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں اشرافیہ کے خلاف پہلی بار یہ احتسابی کارروائی ہو رہی ہے۔ سیاستدانوں پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں اور اس کی ''پبلسٹی'' ساری دنیا میں ہو رہی ہے لیکن عوام میں اس کے ساتھ یہ بد دلی بھی پیدا ہو رہی ہے کہ احتساب کا کوئی اشرافیائی کیس اب تک انجام کو نہیں پہنچ سکا ہے اور اشرافیہ کے پکڑے گئے ملزم جیلوں میں بھی فائیو اسٹار ہوٹلوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ نہ کوئی افواہ ہے نہ پروپیگنڈا بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا انکشاف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بہ بانگ دہل کیا ہے۔

غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے وہ گنہگار جو دس پانچ ہزار کی کرپشن یا چوری پر منٹوں میں پکڑ لیے جاتے ہیں اور جیلوں کی سختیاں برداشت کرتے کرتے ان کے اعضا مضمحل ہوجاتے ہیں اور اربوں کی کرپشن کے جرم میں پکڑے ہوئے اعلیٰ سطح اشرافیائی ملزمان یا تو جیلوں میں فائیو اسٹارکے مزے لے رہے ہیں یا ضمانتوں پر نکل کر سیاست کر رہے ہیں اور عوام کے ذہنوں میں لاتعداد سوال پیدا کر رہے ہیں۔

وہ لوگ جو عمران خان کے اقتدار میں آنے سے خوش تھے کہ اب سیاست سے گند صاف ہوجائے گا وہ یہ دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں کہ سیاسی گند اور گہرا ہو رہا ہے۔ کیا برسر اقتدار عمران خان احتسابی عمل کو انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی مثبت کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ ہمارا نہیں بائیس کروڑ پسماندہ عوام کا سوال ہے۔

مقبول خبریں