ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘ پر ربڑ اسٹیمپ لگانے کی تیاری

اسپورٹس رپورٹر  منگل 18 دسمبر 2018
 ڈومیسٹک ڈھانچے پر ٹاسک فورس کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے ساتھ کرکٹ کمیٹی کی سفارشات پربھی غور ،پی ایس ایل کے معاملات اور بجٹ پر بات ہوگی۔فوٹو: فائل

 ڈومیسٹک ڈھانچے پر ٹاسک فورس کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے ساتھ کرکٹ کمیٹی کی سفارشات پربھی غور ،پی ایس ایل کے معاملات اور بجٹ پر بات ہوگی۔فوٹو: فائل

 لاہور:  ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘پرربڑاسٹیمپ لگانے کی تیاری کر لی گئی جب کہ گورننگ بورڈ کے ارکان آج سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔

وزیر اعظم اور پی سی بی کے چیف پیٹرن عمران خان ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے سخت ناقد رہے ہیں، ملکی سطح کے مقابلوں میں شرکت کیلیے کرکٹرز کی تنخواہیں اور اخراجات برداشت کرنے والے ان اداروں کا روایتی کردار ماضی بننے جا رہا ہے۔

ڈپارٹمنٹس اب براہ راست اپنی ٹیموں کی دیکھ بھال کرنے کے بجائے ریجنز کو گود لے کر کھلاڑیوں اور اسٹاف کا انتخاب کریں گے۔ فرسٹ کلاس ٹیموں کی تعداد بھی8رہ جائے گی، ماضی میں کئی بار ڈومیسٹک کرکٹ میں ناکام تجربات کرنے والے ڈائریکٹر ہارون رشید نے نیا منصوبہ پیش کرنے کی تیاری کرلی۔

آج نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہورمیں ہونے والے گورننگ بورڈ کے 51ویں اجلاس میں بڑوں سے رائے طلب کی جائے گی، اجلاس میں ارکان ڈومیسٹک ڈھانچے پر ٹاسک فورس کی رپورٹ کا جائزہ لیں گے،اس حوالے سے کئی سوالات کرکٹ حلقوں میں گردش کررہے ہیں،ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں ختم ہوئیں تو کرکٹرز کی ملازمتوں کاکیا بنے گا؟ریجنز لے پالک ہوگئے تو منتخب عہدیداروں کا مستقبل کیا ہوگا؟ گورننگ بورڈ میں ان کی نامزدگیوں ختم ہوئیں تو کیا فارمولا ہوگا؟ان سب امور پر منگل کی میٹنگ میں سوالات متوقع ہیں۔

محسن حسن خان کی زیرسربراہی کام کرنے والی کرکٹ کمیٹی بھی ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ میں بہتری لانے کیلیے اپنی سفارشات مرتب کرچکی،ان پر بھی غور کیا جائے گا،پی ایس ایل کے معاملات اور بجٹ پر بات چیت بھی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے، پلیئرز ویلفیئر پالیسی کے تحت ادا کیے جانے والے معاوضوں پر نظر ثانی ہوگی، ارکان کو بھارت سے ہرجانہ وصولی کیس کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

دوسری جانب سابق کپتان جاوید میانداد نے ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں ختم کرنے کو ایک بے وقوفانہ سوچ قرار دے دیا،ایک برطانوی ویب سائٹ کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ مجوزہ تبدیلی سے ڈومیسٹک کرکٹ میں جادوئی انداز میں بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی،اس معاملے میں کسی سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا۔

جاوید میانداد نے کہا کہ ہمارے وقت میں ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں ملک بھر کے کرکٹرز کیلیے کشش رکھتی اور معیار کاؤنٹیز جیسا ہوتا تھا،اس سے ورلڈکلاس بیٹسمینوں سمیت بہترین کھلاڑی قومی ٹیموں کو میسر آتے، کسی کرکٹرز کو ڈپارٹمنٹ سے ریجن میں ڈال دینے سے اس کی کارکردگی بہتر نہیں ہوجائے گی،کھلاڑی کو سپورٹ دینے سے ہی نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ریجنز کے معاملات پہلے سے ہی اتنے خراب ہیں کہ ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی،ڈپارٹمنٹس کی وجہ سے کرکٹرز کو مالی آسودگی حاصل ہوتی اور وہ اپنی پوری توجہ کھیل پر دیتے ہیں، پی آئی اے اور بینکوں کی ٹیمیں نہ ہوتیں تو حنیف محمد اور وسیم اکرم جیسے اسٹارز کس طرح سامنے آتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔