گیس کا مسئلہ اور عوام
بات چلی تھی گیس کی ہڑتال سے اور پہنچی رشوت کے ریٹ تک۔
جہاں جہاں جمہوریت موجود ہے وہاں وہاں سیاسی پارٹیوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ اختلافات کا رہنا کوئی خطرے کی بات نہیں لیکن جب اختلافات عداوتوں میں بدل جاتے ہیں تو جمہوری نظام خطرے کی زد میں آجاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، لیکن اس جمہوری ملک میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہمیشہ سخت اختلافات رہے ہیں ، جبتک پاکستان مغربی اور مشرقی میں بٹا ہوا تھا دونوں حصوں میں اختلافات موجود تھے اور جب یہ اختلافات عداوتوں میں بدلتے گئے تو پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑتی رہی اور جب 1971 میں یہ عداوتیں دشمنیوں اور عدم اعتماد میں بدل گئیں تو پاکستان ٹوٹ کر دو آزاد ملکوں میں بٹ گیا ،کیونکہ دونوں حصوں میں اختلافات عداوتوں میں بدل گئے تھے۔ جب اختلافات عداوتوں میں بدل جاتے ہیں تو عدم اعتماد پیدا ہوجاتا ہے جہاں عدم اعتماد جڑیں پکڑ لیتا ہے تو نتیجہ ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔
متحدہ پاکستان میں یہی کچھ ہوا اختلافات عداوتوں میں بدل گئے اور عداوتیں عدم اعتماد میں بدل گئیں، یوں متحدہ پاکستان 25 سال کے اندر اندر ٹوٹ کر دو آزاد ملکوں میں بدل گیا۔ سابقہ مغربی پاکستان حالیہ پاکستان مختلف حوالوں سے عدم اعتماد کا شکار ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں گیس کی بندش اور ہڑتال کی گئی اور عوام کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا، گیس کی بندش صرف سندھ تک محدود رہی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ گیس پر پہلا حق ہمارا ہے سندھ 70 فیصد پیداوار دیتا ہے ۔
مراد علی شاہ نے کہا ہم نے وفاقی وزیر پٹرولیم کو اس حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے۔ایک ہفتے تک جاری رہنے والا گیس کا بحران ختم ہوگیا ہے ، یہ بحران غریب عوام کا پیدا کیا ہوا نہیں تھا جن بحرانوں میں اربوں روپے ملوث ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بحرانوں میں اعلیٰ سطح کے فنکار ملوث ہوتے ہیں بے چارہ غریب تو ان بحرانوں کا شکار ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے بحران پیدا بھی کرتا ہے اور بڑی خوش اسلوبی سے حل بھی کرلیتا ہے۔ اسی خوبی کی وجہ سے سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اس قسم کے بحران پیدا ہوتے ہیں اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں گیس کی کمی ہے ہمارے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بہت دوڑ دھوپ کرکے اس مسئلے کا حل ایل این جی کی شکل میں نکالا اور ان کی ''مخلصانہ'' کوششوں سے پنجاب اب گیس کے بحران سے نکل گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے ایل این جی کے حصول کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے اس کا علم عوام کو تھوڑا ہی ہوتا ہے، بے چارے عباسی صاحب نے بے انتہا کوشش کرکے ایل این جی درآمد کرائی بے چارے عوام تو اس گیس کرائسس کو جانتے بھی نہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں نے بلاوجہ عباسی صاحب کو مشق ستم بنایا کسی ظالم سیاستدان نے عباسی صاحب کا شکریہ تک ادا نہیں کیا کہ انھوں نے پنجاب کو اس بڑے مسئلے سے نجات دلادی۔
اگر بجلی گیس کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو بے چارے عوام اپنی بڑی سے بڑی ناراضگی کا اظہار پرانے ناکارہ ٹائر جلاکر کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا کمال ہے کہ اس جمہوریت میں اپنا غصہ غریب طبقات پر ہی اتارتے ہیں، اگر مسئلہ بجلی گیس کا ہو تو عوام اپنا غصہ ملیر، لانڈھی،کورنگی کے علاقوں ہی میں اتارتے ہیں، پنکچر بنانے والے جانتے ہیں کہ عوام پر جب غصہ سوار ہو تو وہ اپنی کلاس کے لوگوں کی ملکیت پر ہی غصہ اتارتے ہیں۔ اس پیشگی آگہی کی وجہ سے انھیں عوامی غصے کے اظہارکا انتظام کرنے میں بڑی آسانیاں ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً بہت سارے دکاندار پرانے ٹائر لنڈا کی قیمت پر خرید کر دکان کے باہر ہی سجا کر رکھ دیتے ہیں کہ احتجاج کرنے والوں کو پرانے ٹائر ڈھونڈنے کی زحمت نہ ہو۔
احتجاجی طبقات کا تعلق چونکہ غریب بستیوں سے ہی ہوتا ہے، لہٰذا ان کی دکانوں وغیرہ پر سستی چیزیں ہی رکھی جاتی ہیں ۔ اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ بے چارے غریب طبقات اپنا غصہ غریب طبقات ہی پر اس لیے اتارتے ہیں کہ ان بستیوں کے دکاندار اپنی دکانوں پر نہ قیمتی شکاری کتے رکھتے ہیں نہ چوکیدار اس لیے نہ احتجاج کرنے والے کو زیادہ نقصان ہوتا ہے نہ احتجاج سہنے والوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
یہ بات ایک عام اور معمولی ہے لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت کے کاریگروں نے ہر اچھے برے جمہوری اور غیر جمہوری کاموں میں احتجاجی عوام کا رخ عموماً غریب طبقات کی بستیوں ہی کی طرف رکھا ہے کوئی کتنا بڑا احتجاجی ہو وہ اپنا غصہ اتارنے کے لیے لالوکھیت سے ڈیفنس نہیں جاتے وہیں کہیں قریبی غریب بستیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس میں ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ اگر پکڑے جائیں تو چھوٹنے کی قیمت کم ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ ایک تو پولیس اہلکار ایسی بستیوں میں ملزمان کی رہائی کا ریٹ اتنا ہی رکھتے ہیں کہ ملزم زیادہ کاوش کے بغیر آسانی سے رہائی کی قیمت ادا کردیتا ہے۔
بات کہیں سے کہیں چلی گئی بات چلی تھی گیس کی ہڑتال سے اور پہنچی رشوت کے ریٹ تک۔ کلفٹن، ڈیفنس جیسی بستیوں میں ایک تو چوکیدار زیادہ ہوتے ہیں اور مسلح بھی ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ امپورٹڈ اور شکار کے ماہر اونچی نسل کے کتے ہوتے ہیں جو ملزم کے کپڑے پھاڑ کر نہیں چھوڑ دیتے بلکہ گوشت کے ٹکڑے لے کر چھوڑتے ہیں۔ ایسی خطرناک بستیوں کا رخ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ یہاں احتجاج بہت مہنگا پڑتا ہے اس ایکٹی ویٹی میں شامل کردار پکڑے جانے اور چھوڑے جانے کے تمام گر جانتے ہیں اس لیے یہ ایکٹی ویٹی جاری رہتی ہے۔
اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں اصل کمائی والا طبقہ عوامی نظروں سے دور رہتا ہے، مخالفین کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں اور ملزمان روایتی ہوشیاری سے ان الزامات کے سائے سے گزر جاتے ہیں۔ مسئلہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا ہو یا بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا دونوں سیاسی فریق عوام کی نظروں میں دھول جھونک کر اپنا کام کر جاتے ہیں۔ کروڑوں اربوں روپے بینکوں میں ادھر سے اُدھر ہوجاتے ہیں عوام اپنا فرض پرانے ٹائر جلا کر ادا کرتے ہیں۔ پولیس اپنا روایتی فرض لین دین کا ادا کرتی ہے مخالفین اپنے احتجاج کا فرض ادا کرتے ہیں اور جمہوریت بڑی کامیابی سے چلتی رہتی ہے۔