بی بی کی برسی اور پی پی کا المیہ

آج کی پی پی پی سب کچھ ہوسکتی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کی امین ہرگز نہیں


محمد احمد December 27, 2018
آج کی پی پی پی سب کچھ ہوسکتی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کی امین ہرگز نہیں۔ (فوٹو: فائل)

بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر بہت کچھ کہا اور لکھا جائے گا، اور ایک طویل مدت تک ان کی خدمات و شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی رہے گی۔ اس برس بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ان کی جماعت کے موجودہ رہنماؤں کے کردار پر لکھنا اشد ضروری ہے، جن کی وجہ سے ایک جماعت جو وفاق کی علامت تھی، کہ جس کی لیڈر کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا، کہ جس جماعت کو آمریت کے جبر ختم نہ کرسکے، وہ جماعت محض ایک صوبے کے دیہی علاقوں تک سکڑ کر رہ گئی، اور اس پر جماعت کے موجودہ رہنماؤں کو کوئی ملال یا ندامت نہیں۔ ایسا ایک دن میں تو نہیں ہوا۔ اس مقام تک پی پی پی ایک دن میں نہیں بلکہ رفتہ رفتہ پہنچی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


جماعت کے بانی سربراہ جناب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی چند قابل قدر سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے کہ جن کی شخصیت کا سحر ان کے وصال کے عشروں بعد بھی کم نہیں ہوا۔ بےشک، جناب بھٹو کی پاکستان کےلیے گراں قدر خدمات تھیں اور ان کی کامیابیوں کی فہرست بھی بہت طویل تھی۔ بہرکیف، اس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں۔ جناب بھٹو کے مخالفین کی نظر میں ان کی ناکامیوں اور غلطیوں کی بھی ایک طویل فہرست تھی، کہ جس کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ لیکن جناب بھٹو کے حامی ہوں یا مخالفین، کوئی بھی نہ صرف ان کی بلکہ ان کے ساتھیوں کی بھی مالی دیانت پر شبہ تک نہیں کرسکتا... اور جناب بھٹو کہ یہی خوبی انہیں موجودہ پی پی پی کی لیڈر شپ سے ممتاز بناتی ہے۔

جناب بھٹو کے وصال کے بعد ان کی بیگم محترمہ نصرت بھٹو نے ضیاء الحق کے جبر کا دلیری سے مقابلہ کیا؛ پھر بے نظیر بھٹو نے پی پی پی کی باگ ڈور سنبھالی اور ضیاء الحق کی آمریت کو شیر کی طرح للکارا۔ شاعر عوام جناب حبیب جالب نے بے نظیر بھٹو کے حق میں، اُس دور میں ایک نظم لکھی جسے بعد ازاں شہرت دوام ملی۔ اس کے چند شعر کچھ اس طرح سے ہیں:

ڈرتے ہیں بندوقوں والے اک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے اک نہتی لڑکی سے


ڈرے ہوئے ہیں، مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملا، تاجر، جنرل جیالے، اک نہتی لڑکی سے


دیکھ کے اس صورت کو جالبؔ ساری دنیا ہنستی ہے
بلوانوں کے پڑے ہیں پالے، ایک نہتی لڑکی سے


بے نظیر بھٹو نے جدوجہد کے ان برسوں میں ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم باپ کی عظیم بیٹی تھی جسے فکر تھی غریب کی، کسان کی، محنت کش مزور کی، بے کس عورت کی اور سب سے بڑھ کر پارٹی ورکر کی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو کی زندگی میں ایک حادثہ آصف علی زرداری کی صورت میں رونما ہوا۔ محترم قارئین، میں نے آصف علی زرداری سے شادی کو حادثہ کیوں کہا؟ اس بات کا خلاصہ اس تحریر کے اختتام پر کروں گا۔

بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم پاکستان کی حثیت سے اپنے دونوں ادوار میں بہت سی غلطیاں کیں، کیونکہ سیاسی طور پر ان میں ابھی وہ پختگی نہ تھی؛ اور شاید وہ مردم شناس بھی نہ تھیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے سیاسی رفیق ان کو پے در پے دھوکے نہ دیتے۔ بہرحال، مشرف دور میں بے نظیر بھٹو ایک بار پھر جلاوطن ہوئیں اور واپسی پر ان کا استقبال بم دھماکوں سے ہوا۔ مگر ان کے ارادے کبھی متزلزل نہ ہوئے اور نہ ہی قدم لڑکھٹرائے؛ اور موت کو بھی انہوں نے اپنے بہادر باپ کی طرح سینے سے لگایا۔ بے نظیر بھٹو کا وصال پاکستان کےلیے عظیم نقصان کا باعث بنا۔ ان کے وصال کی وجہ سے پاکستان ایک بین الا قوامی سطح کی لیڈر سے محروم ہوا جس نے بین الاقوامی فورموں پر پاکستان کا مقدمہ بہت زبردست انداز سے لڑا۔ لیکن جب وہ اپنی سیاسی بلوغت کے اس مقام تک پہنچیں کہ جہاں پاکستان کو ان کی اشد ضرورت تھی، وہاں وہ ہم سے جدا ہوئیں۔

پورا پاکستان اس دختر کےلیے افسردہ تھا، ہر آنکھ اشک بار تھی، اور ہر ہاتھ دعا کےلیے بلند تھا، جو یہ ثابت کرہا تھا کہ پاکستان کا ہر شہری جو سندھی تھا یا پشتون، پنجابی تھا، یا بلوچی تھا یا سرائیکی، ہر ایک اس عظیم دختر کو سلام پیش کررہا تھا۔ یہ مقام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا:

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں


بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی پر ایک وصیت کی بنیاد پر قبضہ کرلیا اور اپنے فرزند کا نام بھی بدل کر بلاول بھٹو زرداری رکھ لیا۔ شکر خدا کا کہ اپنا نام آصف علی بھٹو زرداری نہیں رکھا۔ جس قدر شعبده باز شخصیت کے حامل موصوف ہوئے ہیں، ان سے اس کام کی بھی امید کی جاسکتی ہے۔ خیر! بے نظیر بھٹو کے بعد پی پی پی میں مخدوم امین فہیم، اعتزاز احسن، جہانگیر بدر، یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین جیسے قابل اور جہاں دیدہ سیاستدان موجود تھے جن میں تمام تر صلاحیتیں بدرجہ اتم تھیں کہ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے پی پی پی کے بنیادی فلسفے کو آگے بڑھایا جاسکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلاول زرداری کی تربیت بھی کی جاتی؛ اور جب وہ مکمل طو ر پر تیار ہوجاتے تو خوش اسلوبی سے ان کو پی پی پی کی وراثت کا امین بنایا جاتا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا اور زرداری راج نے پی پی پی میں موجود بے نظیر بھٹو کے بااعتماد ساتھیوں کو نکال باہر کیا، اور پی پی پی کو غریب سے چھین کر کارپوریٹ سیکٹر کی جھولی میں ڈال دیا۔

بے نظیر بھٹو کے لہو کے صدقے میں ملا اقتدار پاکستان کا بدترین دور ثابت ہوا، جس میں ہرقسم کی کرپشن نے عروج پایا، اور پی پی پی کو رفتہ رفتہ تباہی کی جانب دھکیل دیا۔ ماضی میں پنجاب وہ صوبہ تھا کہ جس نے جناب بھٹو کو وزیراعظم بنایا، بے نظیر بھٹو کو عزت بخشی، مگر پھر اسی صوبے سے پی پی پی کا صفایا ہو گیا، جس کی وجہ زرداری راج کی بدترین پرفارمنس تھی۔ بہرحال، پی پی پی کے زوال کا خلاصہ چند الفاظ سے کیا جائے، تو وہ یہ ہیں: ''آصف علی زرداری و ہمنوا، اور ان کی زر پسندی۔''

قارئینِ کرام! میں نے بے نظیر بھٹو کی شادی کو حادثہ اس لیے کہا تھا کہ ساری زندگی آصف علی زرداری کی حرکتوں کی وجہ سے محترمہ خود بھی بدنام ہوتی رہیں، اور طرح طرح کے الزامات برداشت کرتی رہیں۔ آخر میں بس اتنا ہی کہ پی پی پی کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے چاروں صوبوں کو باندھنے والی زنجیر ٹوٹ گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی مالی دیانت کی گواہی تو ان کے شدید محالفین دے سکتے تھے، مگر آج کی پی پی پی کے لیڈروں کی دیانت کی گواہی ان کے اپنے بھی نہیں دے پاتے۔ جس جماعت کو ضیاء الحق اور مشرف نہ مار سکا، اس جماعت کو آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں نے مارڈالا۔ بہرکیف، آج کی پی پی پی سب کچھ ہوسکتی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کی امین ہرگز نہیں۔

اختتام پر جالب کا ایک اور شعر

خاک میں مل گئے نگینے لوگ
حکمراں ہوگئے کمینے لوگ


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں