کرپشن کی کہانی

یہ کوئی نہ حل ہونے والا سوال نہیں بلکہ اس سوال کو ہم دنیا کا سب سے آسان سوال کہہ سکتے ہیں


Zaheer Akhter Bedari December 27, 2018
[email protected]

آج کل میڈیا زعمائے سیاست کی اربوں کی کرپشن خبروں سے بھرا رہتا ہے۔ کرپشن اب اشرافیہ کی دہلیز پار کرکے ہر اس بندے کی پہنچ تک آ گئی ہے جس میں کرپشن کی ذرا بھی صلاحیت ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس حوالے سے پاکستان میں کرپشن کا وجود بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہونا چاہیے لیکن حال یہ ہے کہ قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے عوام کے منتخب نمایندے اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام ہیں۔ کرپشن پاکستان میں کوئی نئی ایجاد نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کرپشن بھی تولد ہوگئی ہے۔

یہ کوئی نہ حل ہونے والا سوال نہیں بلکہ اس سوال کو ہم دنیا کا سب سے آسان سوال کہہ سکتے ہیں۔ انسانی زندگی کو پر مسرت اور خوشحال بنانے کی خواہش جنوں کی شکل میں ہر زندہ انسان تک پہنچی ہوئی ہے جو دولت کی افادیت سے آگاہ ہے اور آج کے سرمایہ دارانہ دور میں شاید کوئی پاگل ہی ہو جو دولت کی افادیت سے لا علم ہو اور اس کی کرشمہ سازیاں نہ جانتا ہو۔

ماضی میں انسان دولت کی افادیت سے اس لیے ناواقف تھا کہ دنیا میں دولت سے خریدی جانے والی اشیا صرف بالادست طبقات تک محدود تھیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں کو جب اندازہ ہوا کہ غریب اور متوسط طبقات کے پاس بھی اپنا پیسہ ہوتا ہے کہ وہ کم قیمت والی اشیا تعیش خرید سکتے ہیں تو اس کے کار پردازوں نے کم قیمت کی ایسی اشیا بنانی شروع کردیں جو غریب اور متوسط طبقات کی پہنچ کے اندر تھیں۔ ایک تو کم قیمت والی اشیا کی تیاری میں تیزی لائی گئی دوسرے محنت کا روں کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے پروڈکشن میں اضافے کی راہ کھولی گئی۔ اس دو طرفہ ترغیب نے عام آدمی میں بھی اچھی چیزیں خریدنے کی خواہش پیدا کی اور وہ اپنا فاضل رویہ ڈیکوریٹڈ چیزیں خریدنے میں لگانے لگا، اس طرح ڈیکوریٹڈ اشیا کی خریداری میں اضافہ ہونے لگا۔

غریب طبقات کی آمدنی پھر بھی اتنی نہ تھی کہ وہ سستی چیزیں بھی خرید سکے، اس مسئلے کا حل سرمایہ دارانہ نظام کے ماہرین نے یہ نکالا کہ ان سے اوور ٹائم کروانے لگے اور ٹائم سے مزدور کو 10 روپے اضافی ملتے تھے تو سرمایہ کار کو 100 روپے زائد ملنے لگے یوں غریب مزدوروں کو اوور ٹائم کی طرف راغب کیا گیا۔ مزدور اوور ٹائم سے کچھ ڈیکوریٹڈ اشیا خریدنے لگا تو مالکان کی آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔ اس طرح زائد آمدنی کا ایک راستہ نکالا گیا جو غریب طبقات میں ڈیکوریشن آئٹم کی خریداری میں آسانیاں پیدا کرنے لگا۔

وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی انکم میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا لیکن خریداروں کی انکم ایک جگہ ٹھہر گئی اور سرمایہ داروں، صنعت کاروں کی فروخت میں ٹھہراؤ آگیا ۔ سرمایہ داروں کے دماغ میں زائد کمائی کے بے شمار راستے موجود تھے۔ اس طبقے نے پیداوار، آمدنی اور منافع میں بے تحاشا اضافے کا ایک ایسا راستہ نکالا جس سے سوائے محنت کش اور غریب طبقے یعنی دیہاڑی دار طبقے کے باقی لوگ اپنی حیثیت کے مطابق فائدہ اٹھانے لگے اور حکمران طبقات کے تو پوبارہ ہوگئے ۔

جیسے جیسے رشوت بڑھتی گئی روپے کی گردش میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور دولت کی زیادہ سے زیادہ کمانے کی خواہش نے روپیہ کم سے کم مدت میں کمانے کے سیکڑوں طریقے ڈھونڈ نکالے گئے۔ ماضی کا با اخلاق اور اعتدال پسند طریقہ انکم ایسے راستے پر چل پڑا کہ انسان اپنی نظروں میں گرتا چلاگیا۔ یہ سزا سرمایہ دارانہ نظام کی ایسی سزا ہے جس نے انسانوں کو دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے ایک طرف بے لگام لوٹ مار ہے جو ایمانداری اور اخلاق کی ساری سرحدوں کو گرادیا ہے دوسری طرف وہ مجبور طبقات ہیں جن کے لیے ادھر ادھر ہاتھ مارنے کا کوئی راستہ نہیں وہ اپنی محنت سے جو کچھ کماتے ہیں یا جو کچھ نھیں ملتا ہے وہ انھیں بد ترین مشکل ترین زندگی ہی عطا کرتی ہے جو لوگ اخلاق، ایمانداری، خلوص جیسی اضافتوں کا شکار ہیں وہ دال روٹی کے گرد گھوم رہے ہیں۔

80فی صد سے زیادہ انسان جو فکس تنخواہ پرگزارا کرتے ہیں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں دو وقت کی روٹی مشکل سے حاصل کرتے ہیں جن کے بچے تعلیم سے محروم ہیں جن کے بچے علاج سے محروم ہیں جو لوگ رہائش سے محروم ہیں ان کے دل و دماغ اس نا منصفانہ نظام سے سخت بیزار ہیں اور نفرت کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے یہ تضاد اب پاکستانی معاشرے میں کھلے عام دیکھ سکتے ہیں۔ میں اخباروں میں ایسی خبریں عام طور پر دیکھتا رہا ہوں جن میں بتایاجاتا ہے کہ کسی محلے میں عوام نے دو ڈاکوؤں کو پکڑلیا جو ایک گھر سے کچھ نقدی کچھ زیورات چراکر بھاگ رہے تھے اور انھیں اس بیدردی سے مارا کہ ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ 1789 میں فرانس میں بھی یہی حال تھا ان مظالم سے تنگ آئے ہوئے عوام ایک طرف چھرے چاقو لے کر گھروں سے نکلے اور اشرافیہ کی بستیوں میں گھس گئے پھر کیا تھا۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں مجبور طبقات نے اپنا حساب چکایا۔ آج کل بھی فرانس میں مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر فرانس کسی انقلابی فرانس کی طرف جارہاہے۔ ہماری دعا ہے کہ اشرافیہ عقل کے ناخن لے عوام کی زندگی کو جہنم نہ بنائے انھیں بھی انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا حق دے۔

مقبول خبریں