درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت

سال دوہزار اٹھارہ جہاں پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا سال ثابت ہوا وہیں عدالت عظمیٰ کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا


Irshad Ansari January 02, 2019
سال دوہزار اٹھارہ جہاں پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا سال ثابت ہوا وہیں عدالت عظمیٰ کا جادو بھی سر چڑھ کر بول

پاکستان میں سال دوہزار اٹھارہ کا سورج بھی اپنے دامن میں تلخ و شیریں یادیں سمیٹے ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا اور نئے سال کا سورج اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوچکاہے۔

سال دوہزار اٹھارہ جہاں پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا سال ثابت ہوا وہیں عدالت عظمیٰ کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا۔ 2018ء کے دوران پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ عمراں خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی، پی ٹی آئی کو وفاق سمیت ملک کے دو اہم صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ سال دوہزار اٹھارہ ملک دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پر سیاسی اور عدالتی اعتبار سے نہایت گراں گزرا۔ 2018 کا کوئی لمحہ، کوئی دن سیاسی لحاظ سے ہل چل سے خالی نہیں رہا، ہر دن ایک نئے اسکینڈل، نئی جہت اور نئے سیاسی بھونچال کے ساتھ طلوع ہوتا۔کم از کم نواز شریف اور عمران خان کیلئے 2018 ایک یادگار سال رہے گا کیونکہ یہ گزرنے والا سال ایک کے لیے اچھا تو دوسرے کے لیے برا ثابت ہوا ہے۔

اندازہ یہی ہے کہ 2019 بھی اسی آنکھ مچولی میں گزرے گا، عوام تبدیلی پر حکومت سے سوال کریں گے یا واقعی ایک "تبدیلی" کا مشاہدہ کریں گے، حالات نے اس مقولے کو درست ثابت کیا ہے کہ سیاست ممکنات و امکانات کا وہ کھیل ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی شکل اختیار کرتا ہے، البتہ سال دوہزار اٹھارہ کے دوران مسلم لیگ ن پہلی مرتبہ کسی بھی صوبے میں حکومت بنانے سے محروم رہی جبکہ پہلی مرتبہ وفاق میں ان دونوں جماعتوں کے مابین حکومت کے قیام کیلئے باریوں کا بھی خاتمہ ہوا۔ سال دوہزار اٹھارہ کے دوران عوام نے عمران خان کی تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعرے پر ان کو ووٹ دیااور تحریک انصاف اسی نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار ماہ کی کارکردگی کے مطابق پاکستان میں کہیں کوئی نیا پاکستان نظر نہیں آرہا، بلکہ ہر طرف وہی پرانا پاکستان نظر آرہا ہے جو ان کی حکومت سے قبل تھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومتی کابینہ کے ممبران، ان کی صلاحیتیوں، کارکردگی اور بیانات پر نظر دوڑائیں تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ نئے پاکستان کی صورتحال بہت جلد پرانے پاکستان سے بھی بدتر ہو جائے گی ۔

آج وفاقی کابینہ میں سوائے چند وزراء کے کوئی قابل، ذہین، سمجھدار اور سلجھا ہوا وزیر نظر نہیں آتا، بلکہ وزیر اعظم کے قریبی دوستوں یاروں کے مابین وزارتوں کی بندربانٹ ہوئی ہے جن کو ان وزارتوں کی ورکنگ اور مینڈیٹ بارے نہ تو علم ہے اور نہ ان کو ان کاموں پر کوئی دسترس حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں ڈالر کی قدر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے، بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔

پوری حکومتی مشینری اس وقت محض اپوزیشن کو لگام دینے پر لگی ہوئی ہے کسی کو عوام کے مسائل سننے او ر ان کو حل کرنے کی فکر نہیں ہے۔ حکومتی وزراء مسائل حل کرنے کے بجائے محض سیاسی بیانات دینے میں مصروف ہیں، وہ آج بھی ایسے سیاسی بیانات اور تقریریں کر رہے ہیں جیسے وہ حکومت میں نہیں بلکہ اپوزیشن بنچوں پر ہیں اور ان کا کام محض تنقید در تنقید کرنا ہی ہے۔

معاشی و مالی بحران پر قابو پانے کیلئے تیز ہوتی حکومتی کوششوں کی طرح سیاسی و معاشی عدم استحکام و بحران بھی تیز ہوتے جا رہے ہیں اور افواہ ساز فیکٹریوں کی چمنیاں دھواں چھوڑ رہی ہیں کہیں ون یونٹ اور صدارتی نظام کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں سندھ میں گورنر راج لانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور پنجاب و وفاق کے بعد سندھ میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کیلئے ہارس ٹریڈنگ و سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کیلئے فارورڈ بلاک بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے تو سندھ سے پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی سے رابطوں کے برملا دعوے بھی کئے گئے۔

خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد وفاقی کابینہ کی منظوری سے پیپلز پارٹی کے رہنماوں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور سمیت 172لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے بعد سیاسی صورتحال میں بہت تیزی آگئی اور دونوں اطراف سے دھواں دار تقاریر کے بیانات سامنے آئے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر سُپریم کورٹ آف پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر تمام توپیں چلانے کی کوشش کی جسے پیر کو سُپریم کورٹ نے ناکام بنادیا اور عدالت عظمٰی نے وفاقی حکومت کو جعلی بینک اکاونٹس کے مقدمے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعلی سندھ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حکم دیا۔

اب عدالتی حکم پر ای سی ایل میں نام ڈالنے کے معاملہ پر نظر ثانی کیلئے آج (بدھ) وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ہونے جا رہا ہے جس میں ای سی ایل میں ڈالے جانے وال ناموں پر نظر ثانی کی جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی افواہوں کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی سنائی دی گئی اور چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دوٹوک اور واضح ریمارکس سامنے آئے ہیں جو مقتدر قوتوں کیلئے واضح پیغام ہے کہ اگر گورنر راج نافذ کیا گیا تو دو سیکنڈ میں ختم کردیا جائے گا۔

ماہرین قانون کا خیال ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد گورنر راج ممکن ہی نہیں رہا ہے اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وہ تمام نسیں بند کردی گئی ہیں جہاں سے گورنر راج پھوٹتا تھا۔ سُپریم کورٹ میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کے بعد وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو سندھ کا دورہ ملتوی کرنا پڑا اور پریس کانفرنس کرکے اپوزیشن کے خلاف خوب بھڑاس نکالی گئی۔

دوسری طرف سال دوہزار اٹھارہ کے دوران جوڈیشل ایکٹوازم کا راج رہا، اب نیا سال شروع ہوا ہے، ایک طرف ان دنوں شہباز شریف بھی نیب کی حراست میں ہیں اوردوسری طرف نواز شریف جیل میں ہیں، جس کے باعث یہ بات متوقع ہے کہ مریم نواز کی سیاست میں واپسی ہوگی۔

سال 2018 میں اصلاحات اور سماجی مسائل کے حوالے سے بڑے بڑے فیصلے اور ازخود نوٹس لینے والے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نئے سال کے پہلے ہی ماہ 17 جنوری کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ تاہم ان کے جانے سے قبل جعلی اکاونٹ کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں پیپلز پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے گزشتہ دنوں جعلی اکاؤنٹ کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں پیپلزپارٹی کی اہم قیادت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت دیگر رہنماؤں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

کیس کی مزید تفتیش جاری ہے لیکن اس کیس کے باعث سندھ میں سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے بھی وزیر اعلیٰ سندھ کے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے یہ ممکن ہے کہ نئے سال میں اس کیس کے حوالے سے سب سے زیادہ بات کی جائے گی۔ اور پھر اگلے مالی سال 2019-20 کیلئے سالانہ بجٹ سازی بھی شروع ہو چکی ہے اور نئے سال میں ملک کو جن چیلنجز کا سامنا ہونے جا رہا ہے ان سے نمٹنے کیلئے تمام طاقتوں کو آپسی اختلافات و عناد پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ ملک کو درپیش معاشی و سیاسی عدم استحکام اورخطے کی بدلتی صورتحال قومی یکجہتی کا تقاضا کرتی ہے۔

مقبول خبریں