خدارا
اس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو اس قدر کنگال کرکے رکھ دیا ہے
یہ بات ایک عام آدمی کی بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جب کوئی نئی حکومت برسر اقتدار آتی ہے تو اس کی پہلی ترجیح اور اولین ضرورت عام آدمی کو ممکنہ ریلیف پہنچانا ہوتا ہے ، خواہ اس کے لیے اسے کتنے ہی پاپڑکیوں نہ بیلنے پڑیں ، اسی تناظر میں اہل عقل نے کہا ہے ، پہلا امپریشن آخری امپریشن یعنی حکومت جو پہلا قدم اٹھاتی ہے وہ مصنوعی طور پر اس کا آخری امپریشن ہوتا ہے یعنی نئی حکومت عوام کے لیے جو پہلا قدم اٹھاتی ہے عوام اس سے حکومت کے آخری قدم کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ اسی تناظر میں اگر نئی عمران حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا اس حکومت میں ایسے لوگ موجود ہی نہیں رہے تھے جو اسے عوامی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت کا احساس دلاتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو اس قدر کنگال کرکے رکھ دیا ہے کہ نئی حکومت کے لیے عوام کو ریلیف فراہم کرنا ممکن نہ تھا لیکن حکومت خود اپنے وزرا وغیرہ سے فنڈ لیتی تو عوام کو کچھ زیادہ ریلیف فراہم کرنا تو ممکن نہ تھا لیکن عوام کی بنیادی ضروریات میں سے کسی ایک اہم ضرورت میں سبسڈی دے سکتی تھی ۔ مثال کے طور پر عوام کی سب سے زیادہ بنیادی ضرورت آٹا ہے حکومت کچھ اور مدات میں کمی بیشی کرکے اگر آٹے کی قیمت میں کچھ کمی کردیتی تو عوام خوش ہوجاتے ، ویسے تو اسی قسم کے اقدامات کام چلاؤ یا بڑھاؤ کی تعریف میں آتے ہیں لیکن اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ملک میں جو حکومتیں اقتدار میں رہی ہیں ، بد قسمتی یا عوام کے تساہل سے سب اشرافیہ پر مشتمل رہیں اور اشرافیہ نے عوام کی چمڑی بھی نہیں چھوڑی۔ عوام زندہ ضرور ہیں لیکن ان کی زندگی علامتی ہی رہی اور اشرافیہ دنیا میں جنت کے مزے لیتی رہی اور غریب عوام اس امید پر جیتے رہے کہ آج نہیں کل عوام کی ایسی حکومت آئے گی جو اشرافیہ سے لوٹے ہوئے اربوں روپے چھین کر انھیں عوام کی زندگی میں بہتری لانے میں لگائے گی۔
لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ولی عہدی نظام چلانے والے اس قدر مضبوط تھے اور ہیں کہ کوئی عمومی حکومت اس اشرافیہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اسی اثنا میں عمران خان سیاسی پردے پر نمودار ہوئے اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ عوام چونک کر جاگی کہ یہ نیا پاکستان کیا بلا ہے انتخابات ہوئے اور نئے پاکستان کی امیدیں عوام نے عمران خان کی پرانی پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار میں لایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سیاسی کھیل میں نووارد ہیں لیکن وہ 22 سال سے کسی نہ کسی حوالے سے سیاست میں رہے ہیں۔ اس پس منظر میں عمران خان کو ملکی سیاست اور لٹیری کلاس کی لوٹ مارکا اندازہ ہونا چاہیے تھا لیکن '' اے بسا آرزو کہ خاک شد'' عمران خان وقفے وقفے سے نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں اور حلق پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ملک کے 21 کروڑ عوام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے تھے عمران خان کے نئے پاکستان کی تلاش میں لگ گئے، لیکن اب تک نیا پاکستان نہ ملا۔عوام کبھی عمران خان کو کبھی اشرافیہ کے پرانے پاکستان کو دیکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں نیا پاکستان کہاں ہے؟
جو لوگ احتساب کی دم سے لٹک گئے انھیں غالباً اندازہ نہ تھا کہ پرانا پاکستان اور اس کے رکھوالے کس قدر مضبوط اور توانا ہیں۔ اس حوالے سے ایک منطقی بات یہ ہے کہ پرانا پاکستان پرانوں کے اس قدر مضبوط ہاتھوں میں ہے کہ پرانے پاکستان کو لے کر اسے نیا پاکستان بنانا ''کارے دارد'' ہے۔ کوئی پرانا ملک چند امرا کے ادھر ادھر ہونے سے نیا نہیں بن سکتا ، پرانے ملک کو نیا بنانے کے لیے نئے لوگوں کو لانا ہوگا، نئی سوچ کو آگے لانا ہوگا، نئے سیٹ اپ کو آگے لانا ہوگا۔ پرانے پاکستان پر پرانے شکاری مضبوطی سے بیٹھے ہوئے ہیں انھیں ان کی جگہوں سے ہٹانا آسان نہیں، اس کے لیے لوہے کا ڈنڈا اٹھانا ہوگا۔ عمران خان نیا پاکستان لائیں یا نہ لائیں انھیں اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ کوئی اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی آسانی سے نہیں نکالتا کسی سے اربوں کی دولت نکالنا خواہ وہ لوٹی ہوئی ہی کیوں نہ ہو آسان نہیں۔ اربوں نہیں کھربوں کی عوامی دولت لوٹی گئی ہے اور لٹیرے اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ ہر اس زنجیر کو توڑ دیتے ہیں جو ان کے پَر باندھنے کے لیے لائی جاتی ہے۔
نئی حکومت آنے کے بعد صرف ایک تبدیلی آئی کہ پرانے کہ جگہ نئے پاکستان کا کتبہ لگا دیا گیا۔ ملک کے بائیس کروڑ غریب عوام پرانے پاکستان میں جو کھاتے تھے وہی نئے پاکستان میں کھا رہے ہیں دال روٹی، پیاز روٹی یہ سب ایسا ہی ہوتا رہے گا پہلے جو کام سو روپے کی رشوت سے ہوتا تھا اب وہ ڈیڑھ سو کی رشوت سے ہو رہا ہے۔ نیچے سے اوپر تک وہی سیٹ اپ ہے تو پھر بے چارے عوام کو کیا ملے گا۔ کل جو قانون تھا وہ قانون آج بھی ہے بلاشبہ قانون بنانے والوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے لیکن نئے قانون سازوں کا ذہن نہیں بدلا۔
چیف جسٹس جیسے با اختیار انسان کہہ رہے ہیں ''خدارا، ایف بی آر بیرون ملک سے پیسہ واپس لائے۔'' بیرون ملک پیسہ کیسے گیا کون لے گیا۔ لے جانے والا کوئی تو ہوگا۔ وہ کون ہے کہاں ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام میں قانون اور انصاف کو بہت پیچیدہ لیکن بہت آسان بنادیا گیا ہے اور اس میں کوئی بامعنی تبدیلی اسی وقت آئے گی جب قانون ساز مزدور کسان تعلیم یافتہ لیکن غریب عوام ہوں گے۔ پاکستان ابھی تک اشرافیہ کی مکمل گرفت میں ہے اور یہ گرفت کتنی مضبوط ہے اس کا اندازہ ہمارے چیف جسٹس کے اس فرمان سے ہوسکتا ہے ''خدارا ، ایف بی آر بیرون ملک سے پیسہ واپس لائے۔''