بھرتیوں کی منظوری
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی پارٹی ہے
سندھ کابینہ نے گریڈ 1 سے 15 تک کی خالی اسامیوں پر بھرتی کی منظوری دے دی ہے، اس خبر میں یہ تفصیل نہیں بتائی گئی کہ بھرتیوں کا یہ کام بلکہ انتہائی اہم کام کس طریقے سے کیا جائے گا ، لیکن اس حوالے سے سب سے اہم طریقہ میڈیا میں اشتہار دینے کا ہے، بلاشبہ نوکریوں کا اشتہار عوام کے بڑے حصے تک پہنچتا ہے لیکن اس حوالے سے کیا کوئی بامعنی طریقہ انتخاب بھی طے کرلیا گیا ہے۔ یہ سوال کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ماضی میں بھرتی کے کام کو ایسے افراد کے حوالے کیا گیا جنھوں نے نوکریاں بیچنے کے ایسے ریکارڈ قائم کیے جو عوام کے ذہنوں میں اب تک محفوظ ہیں۔ ہم جس معاشی نظام میں زندہ ہیں وہ سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ اگر بھرتیوں کا یہ کام پوری منصوبہ بندی اور دیانت سے نہ کیا گیا تو اس کا حال بھی ماضی کی بے لگام بھرتیوں جیسا ہی ہوگا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی پارٹی ہے ، اس دعوے کا تقاضا ہے کہ لاکھوں بے روزگار اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کوکرپشن سے بچا کر اہلیت کے مطابق ملازمتیں فراہم کی جائیں۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے یہاں صرف کراچی کے بے روزگار ہی نہیں بلکہ سارے ملک سے بے روزگاروں کا ایک ہجوم ہوتا ہے، ہزاروں بے روزگار نوجوان کراچی میں ملازمت کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، انھیں پراپر گائیڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کسمپرسی کی وجہ یہ ضرورت مند رشوت خور گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور منہ مانگی قیمت دے کر نامناسب نوکریاں حاصل کرتے ہیں، ان بے روزگار نوجوانوں کوگائیڈ کرنے کے لیے شہر کے ہر ٹاؤن میں ایک ذمے دار کمیٹی ہو جو ضرورت مندوں کو بے سہارا چھوڑنے کے بجائے ان کی رہنمائی کرے۔
ہمارے صنعتی علاقوں میں بے روزگاروں کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بے روزگار لوگ ملوں اور کارخانوں کے گیٹوں کے سامنے ہر روز گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں ۔ روزگار کے لیے امیدواروں کو منتخب کرنے کا کوئی مناسب اور مستقل انتظام نہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ عموماً ٹائم آفس اور واچ اینڈ وارڈ کے اہلکار اپنے صوابدید کے مطابق ضرورت مندوں کو منتخب کرلیتے ہیں اسی کام کو مناسب طریقے سے آبرو مندانہ طور پر کیا جائے تو اس کے نتائج زیادہ بہتر نکل سکتے ہیں۔ کراچی جیسے دو کروڑ آبادی کے شہر میں ہر ٹاؤن میں ایک ایمپلائیز ایکسچینج کی ضرورت ہے جو بے ربط بھرتیوں کو بہتر طریقے سے پورا کرسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ملک کے بے روزگاروں کے لیے ایک کروڑ نوکریاں فراہم کریں گے۔ عمران خان کے مخالفین نے عمران خان کے اس اعلان کا خوب مذاق اڑایا۔ بلاشبہ ایک کروڑ روزگار کی فراہمی ایک مشکل کام ہے لیکن تنقید کرنے والے سورماؤں نے عمران خان کے اعلان کا مذاق تو اڑایا لیکن ان کے معصومانہ اور پرعزم ارادوں کی قدر نہ کی۔ عمران خان کا مذاق اڑانے والوںمیںوہ ''معصوم'' پیش پیش تھے جنھوں نے ہزاروں نوکریاں بیچ کر کروڑوں روپے کمائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی تنقید کا معیار اس قدر گھٹیا ہے کہ اس تنقید کو تنقید کے بجائے بے ہودگی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اور اس حوالے سے وہ حضرات زیادہ شور مچا رہے ہیں جنھوں نے ہزاروں کے حساب سے نوکریاں سر عام نیلام کیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں روزگارکی حالت بہت خراب ہے لیکن اس کی وجہ نوکریوں کی فروخت کے علاوہ سابقہ حکومتوں کی نااہلی ہے، ان حضرات نے کسی منصوبے کے بغیر لوٹ سیل لگا دی اور جس کی جیب میں مال تھا اس نے مرضی کی نوکری خرید لی۔ میرٹ اور معیار وغیرہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سنا جا رہا ہے کہ سندھ میں بھی معیار اور کوالیفکیشن کے بغیر نان میٹرک لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر لگا دیا گیا ہے اور کوالیفائیڈ لوگ چپراسی کی جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
حکومت کی ناتجربہ کاری کی وجہ نوکریوں کے مسئلے کو منصوبہ بندی کے ساتھ شروع نہیں کیا گیا۔ بیرونی ملکوں سے جاب کے حوالے سے جو آفر مل رہی ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں۔ اس میں اضافے کی ضرورت ہے اور یہ کام متعلقہ ادارے اور وزارتیں انجام دے سکتی ہیں۔ عرب ممالک سے ہمارے تعلقات بہتر سے بہتر ہو رہے ہیں۔ عرب ملک ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لیے بھاری مدد دے رہے ہیں، ہمارے وزیر خارجہ کی ذمے داری ہے کہ وہ ملازمتوں کو بھی ایک معاشی ترقی کا حصہ سمجھیں۔ بیرون ملک ملازمتوں پر نااہل اور نان کوالیفائیڈ لوگوں کو بھیجنے پر پابندی سخت کی جائے تاکہ بیرون ملک کام کرنے والے ملک کی آبرو رکھ سکیں۔
ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان اور ہنرمند لوگ ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے جوتے چٹخاتے رہتے ہیں، روایتی ایمپلائیمنٹ کی کارکردگی مایوس کن ہے ۔ ہماری معیشت سرمایہ دارانہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ ایمپلائیمنٹ جیسے اداروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اگر ان اداروں میں رشوت اور سفارش گھس آئے تو پہلے سے موجود نااہلی میں اور اضافہ ہوگا۔ تحریک انصاف میں ایک گروپ کی یہ ذمے داری ہو کہ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک ملازمت کے امیدواروں کی علمی اور فنی اہلیت کا سختی سے جائزہ لیتے رہیں۔