سوٹا لگاتے ہو؟

زین علی  ہفتہ 19 جنوری 2019
لگ بھگ 50 لاکھ آبادی والے اس ضلع رحیم یار خاں میں صرف ایک یونیورسٹی موجود ہے۔ (فوٹو: فائل)

لگ بھگ 50 لاکھ آبادی والے اس ضلع رحیم یار خاں میں صرف ایک یونیورسٹی موجود ہے۔ (فوٹو: فائل)

غالباً ایسے ہی جاڑے کے دن تھے۔ ہم پچاس طالب علموں پر مشتمل کمرہ جماعت میں ایک ماسٹر صاحب انگریزی پڑھا رہے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جس وقت میں بارہویں جماعت میں پڑھا کرتا تھا۔ کالج کا چپڑاسی کمرے میں داخل ہوا اور ماسٹر صاحب کے قریب ہوکر کچھ بڑبڑانے لگا۔ میں نے اس جانب توجہ نہ دی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے اپنی بات مکمل کی، ماسٹر صاحب نے تمام طالب علموں پر سرسری نگاہ ڈالی اور ان کی نظریں مجھ پر آکر ٹھہر گئیں۔ انہوں نے میرا نام پکارا اور کہا کہ میں چپڑاسی کے پیچھے چلا جاؤں۔ میں نے کتابیں وہیں دھریں اور چپڑاسی کے ساتھ ہو لیا۔ کمرہ جماعت سے نکلتے ہی میں نے چپڑاسی سے مدعا پوچھا تو اس سے کہا کہ پرنسپل کے دفتر سے یہ پیغام موصول ہوا ہے کہ تمہیں پیش کیا جائے۔ میں نے ماتھے پر شکن ڈالے بغیر پرنسپل آفس کا رخ کیا کیونکہ یہ مجھے کوئی تعجب کی بات معلوم نہ ہوئی۔ اس لیے نہیں کہ میں لائق طالب علم تھا، بلکہ اس لیے کہ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتا تھا، سو اس لیے پرنسپل صاحب کے دفتر آنے جانا بنا رہتا تھا۔

میں پرنسپل کے دفتر کے باہر پہنچا۔ دروازے پر دستک دی اور اجازت لے کر دفتر کے اندر چلا گیا۔ پرنسپل صاحب نے میری طرف الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا اور کہنے لگے ’’سوٹا لگاتے ہو؟‘‘ میں نے نفی میں جواب دیا۔ پھر پوچھنے لگے ’’کیا کبھی چرس وغیرہ یا کسی اور قسم کا نشہ کرتے ہو؟‘‘ میں نے پریشان کن لہجے میں نفی میں سر ہلایا۔ ’’وہی میں کہوں کہ تم نہیں ہو سکتے!‘‘ یہ کہتے ہوئے ریسیور کان سے لگایا اور فون پر نمبر ڈائل کرکے کسی شخص سے بات کی۔ دوسری جانب غالباً وائس پرنسپل تھے، انہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ کیا یہی بچہ ہے اور کچھ دیر بعد ریسیور رکھ دیا۔ پھر مجھے کہنے لگے ’’کیا زین نام کا کوئی اور طالب علم بھی تمھاری جماعت میں پڑھتا ہے؟‘‘ میں نے انہیں بتایا کہ جی ہاں! زین نام کا ایک اور طالب علم میرا ہم جماعت ہے۔ پرنسپل صاحب نے مجھے کہا کہ واپس کمرہ جماعت میں جاؤں اور دوسرے زین کو ان کے یہاں بھیج دوں۔ میں نے ویسا ہی کیا لیکن مجھے تمام تر واقعے پر تعجب تھا۔ سو میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کالج میں بہت سے طالب علم منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ اور کچھ صحافیوں کو اس متعلق معلوم ہوا ہے اس لیے یہ تمام تر کاروائی کی جارہی ہے۔

یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس میں میڈیا ملوث ہوا اور اس کی جانچ پڑتال شروع کی گئی ورنہ ایسے بہت سے واقعات کا میں چشم دیدہ گواہ ہوں جو کالج میں رونما ہوچکے تھے۔

صادق آباد شہر میں ایسے واقعات کا ہونا غیر فطری سا معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہاں کا معاشرہ قریباً قدامت پسند ہے۔ صادق آباد شہر کی آبادی تقریباً 13 لاکھ ہے۔ یہاں ایک ایک گورنمنٹ ڈگری کالج مرد و خواتین کےلیے ہے اور لڑکوں کےلیے ایک گورنمنٹ کامرس کالج ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں نمایاں تین پرائیویٹ کالجز ہیں۔ شہر کے لوگ گورنمنٹ کالجز کو ترجیح نہیں دیتے، یہاں عموماً شہر کے اطراف پر موجود گاؤں سے لوگ داخلہ لیتے ہیں۔ شہری آبادی کا زیادہ تر انحصار ان ہی تین پرائیویٹ کالجز پر ہے۔ یعنی ستم دیکھیے کہ 13 لاکھ لوگوں کےلیے 3 کالجز دستیاب ہیں۔ گورنمنٹ کالجز اپنے گرے ہوئے معیار اور عدم توجہ کے باعث طالب علموں کا انتخاب نہیں بن پاتے۔ لیکن ان تین پرائیویٹ کالجز میں بھی معیار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ تعلیمی ادارے کم اور کاروباری مراکز زیادہ ہیں۔

میں انٹرمیڈیٹ کے دوران دو سال ان تین میں سے ایک ادارے میں پڑھتا رہا۔ ان دو سال کے دوران بیسیوں اساتذہ تبدیل کیے گئے۔ یہ اساتذہ ان تینوں کالجز میں پھرتے رہتے ہیں، یعنی کبھی یہاں پڑھاتے ہیں تو کبھی وہاں۔ جس جگہ استاد کی بولی زیادہ لگے، استاد وہاں کا رخ کرلیتا ہے۔ یا پھر انٹر میڈیٹ کو پڑھانے والا استاد گورنمنٹ نوکری ملتے ہی کسی پرائمری اسکول میں استاد بھرتی ہوجاتا ہے۔

تین میں سے دو کالجز میں گراؤنڈ کی سہولیات میسر نہیں، سو طالب علم کسی صحت مند سرگرمی میں شریک ہونے کی بجائے یا تو منشیات کا استعمال شروع کردیتے ہیں یا پھر کسی شیریں کی تلاش میں فرہاد بنے پھرتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ کالج کے بہت سے مرزے خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اورپھر وہی ہوتا ہے کہ صاحباں کے کئی بھائی آپہنچتے ہیں۔ یہ تین تعلیمی ادارے اپنے سالانہ دن پر کسی ان پڑھ سیاست دان کو مدعو کرتے ہیں جو انہیں تعلیم کی عظمت پر لیکچر دیتا ہے۔ سال میں ایک مرتبہ گلوکار بلاتے ہیں اور چند ایک ایسے معاملات سے سال گزار دیتے ہیں نیز علمی و ادبی محفل و افراد سے ان کا جی گبھراتا ہے۔ لگ بھگ 50 لاکھ آبادی والے اس ضلع رحیم یار خاں میں صرف ایک یونیورسٹی موجود ہے۔ چند ایک اس یونیورسٹی کی راہ لیتے ہیں اور چند ایک ہماری طرح دوسرے شہروں کی خاک چھانتے نظر آتے ہیں؛ اور جو بقیہ بچتے ہیں، وہ ان ہی تین کالجز میں شام کے وقت اعلی تعلیم حاصل کرنا شروع کردیتے ہیں۔

جی ہاں! یہی ادارے گریجویشن میں بھی طالب علموں کو سہارا دیتے ہیں اور وہی استاد انہیں پڑھاتے ہیں جو صبح کو انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کو کالج میں پڑھاتے ہیں۔ بادشاہ وقت نے اگر جنوبی پنجاب کی جانب بھی دیکھا ہوتا، اگر ہم نے 50 لاکھ لوگوں کے ضلعے کو پیار کی تھپکی دی ہوتی اور اگر 13 لاکھ آبادی پر مشتمل پنجاب کی اس آخری تحصیل کے لوگوں پر رحم کیا ہوتا تو شاید آج ہم اپنے شہر اور گھر میں آسودگی سے موجود ہوتے اور لاہور جیسا شہر آبادی کی زیادتی کے باعث بے ہنگم نہ ہوتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔