دھوبی کا کتا

ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم تنقید کرنے میں سب سے آگے ہیں مگر خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے


احمر جلیل January 24, 2019
عمران خان کا طرزِحکمرانی بہت ہی منفرد ہے۔ ایک رہنما کی وسیع سوچ انہیں ایک عظیم لیڈر بناتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

2018 میں پاکستان کی عوام نے ایک نئی سیاسی پارٹی کو منتخب کیا۔ برسرِاقتدار آنے کے بعد اس پارٹی کے سربراہ اور موجودہ وزیرِاعظم عمران خان صاحب کے سامنے بے شمار چیلینجز تھے۔ عمران خان کا طرزِحکمرانی بہت ہی منفرد ہے۔ ایک رہنما کی وسیع سوچ انہیں ایک عظیم لیڈر بناتی ہے۔ اور یہ سوچ عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمتِ عملی میں چھلکتی ہے۔ آنے والی نسلوں کےلیے شجر کاری مہم ہو یا سڑک پر سونے والے بے گھر افراد اور مسافروں کےلیے پناہ گاہوں کا قیام۔ دوسرے ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان سے بہتر تعلقات کےلیے اقدامات ہوں یا بین الاقوامی سرمایہ کاری کی بحالی۔ کامیاب غیر ملکی دورے ہوں یا امریکی صدر کو ترکی بہ ترکی جواب دینا۔ ہر اقدام میں ہمیں یہی سوچھ دکھتی ہے کہ پاکستان کو اب آگے بڑھنا ہےیہی ہے ''نیا پاکستان۔''

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ مگر کوئی بھی ملک ایک رات میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہوجاتا۔ امید ہے کہ حکومتی حکمت عملی کے دور رست مثبت نتائج ہوں گے۔ جہاں تک سوال ہے کراچی میں ہونے والے، تجاوزات کے خلاف آپریشن کا تو اوّل تو وہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ میں اس بات سے ضرور متفق ہوں کہ اس آپریشن کی آڑ میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر کوئی چیز چالیس سال سے غیر قانونی ہو، تو وہ چالیس سال بعد بھی غیر قانونی ہی رہے گی۔

ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم تنقید کرنے میں سب سے آگے ہیں مگر خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے۔ کچھ لوگوں کو ایسی حکومت کی عادت ہونے میں وقت تو لگے گا کیونکہ انہیں پاکستان کی بہتری، ترقی اور خود مختاری کسی صورت ہضم نہیں ہوتی۔ ہم اپنے ملک کے اندر موجود ہوں یا ملک سے باہر، ہمیں تنقید کرنے کا فرض نباہنا ضروری ہے۔ اور جب یہ تنقید روزی روٹی بن جائے پھر تو کیا کہنے! کس بات کی حب الوطنی اور کیسی غیرت۔ کچھ غیر ملکی جریدے پاکستان کے متعلق منفی فضا قائم کرنے کی کوشش میں لگے ہیں اور ہمارے کچھ قابل ''صحافی'' بھی اس میں پیش پیش ہیں۔

ان لوگوں نے آج تک اپنے معاشرے اور اپنے وطن کے لوگوں کےلیے کچھ نہیں کیا۔ کچھ کرنا تو درکنار، کوئی اور اگر کچھ کر بھی رہا ہے تو اسے اپنے ذہن میں موجود تنقیدی ناسور کی بلاجواز اور بے تکی دلیلوں سے مایوس اور گمراہ کیا ہے۔ نجانے لوگ ایسا کیسے کرلیتے ہیں؟ کیسے وہ اپنے ملک کے لوگوں کو اپنے ہی ملک کےلیے بدگمان کرلیتے ہیں؟ چاہے چند پیسوں کی خاطر اپنا قلم ہی کیوں نہ بیچنا پڑے، ہم سب بیچ سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بہت حوصلہ اور بے غیرتی کی انتہاء چاہیے ایسا کرنے کےلیے۔

صحافت اور آزادیِ اظہار کی آڑ میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وطنِ عزیز کی ساکھ کو نقصان پہنچائے۔ وطنِ عزیز کےلیے قلم کا جواب قلم سے ہمیشہ دیا جائے گا۔

خیر! میرا ایمان ہے کہ جو پاکستان کےلیے اچھا سوچے گا، اس کے ساتھ اچھا ہوگا اور جو اس ملک کےلیے یا اس ملک کے خیر خواہ لوگوں کےلیے بغض اور منفی سوچ رکھے گا، اس کا انجام وہی ہوگا جو دھوبی کے کتے کا ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں