پولیوسے متاثرہ ممالک میں پاکستان تیسرے نمبرپر

محمد ثاقب اشرف  جمعرات 24 جنوری 2019
دنیا میں پولیو سے متاثرہ ایک شخص بھی رہا تو اس کے ذریعے سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوںگے

دنیا میں پولیو سے متاثرہ ایک شخص بھی رہا تو اس کے ذریعے سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوںگے

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلی اینٹی بایوٹک 1928ء میں ’’الیگزینڈر فلیمنگ‘‘ نامی شخص نے ایجاد کی جس کے بعد بیکٹیریا سے بچاؤ کی ادویات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ۔بعد ازاں1960میں باقاعدہ طور پر دنیا میں میڈیکل ریولیوشن آیا اور اموات کی شرح میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ۔

اس کے بر عکس میڈیکل ریوولوشن سے قبل انسانی اموات کی شرح بہت زیادہ تھی ۔وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسانی جان کی حفاظت کو نصب العین بنایا گیا وہیں صحت مند انہ زندگی گزارنے کے لئے بھی اقدامات تیز کئے گئے۔ مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لئے اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال نا گزیر ہوگیا۔ پیدائشی بچے سے لے کر 70برس کے بوڑھے کے لئے بھی ویکسینیشن بنائی جانے لگیں تا کہ انسانی زندگی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے اور اسے صحت مند زندگی مہیا کی جا سکے ۔

مہلک بیماریوں کی فہرست میں پولیو کو شامل کرنا غلط نہ ہوگا ۔پولیو وائرس کے ذریعے پھیلنے والی ایسی بیماری ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہو سکتی ہے ۔یہ مرض پیدائش سے لے کر پانچ برس کی عمرتک لاحق ہو سکتا ہے جو پوری زندگی انسان کو معذور یا شدید حالت میں انسان کی موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے لیکن اس کا علاج پیدائش سے لے کر پانچ برس کی عمرتک مسلسل ویکسینیشن سے ممکن ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پولیو کے90 فیصد  کیسز دنیا کے صرف تین ممالک افغانستان‘نائجیریااور پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں ۔پاکستان اور افغانستان مسلم ممالک ہیں جب کہ نائجیریا کی آدھی آبادی مسلمان ہے ۔کئی برس سے پولیو ویکسین کے حوالے سے پاکستان بھر میں ایک بہت بڑی بحث جاری ہے، کوئی اس ویکسین کے حق میں بات کرتا ہے تو کوئی اسے سازش قرار دے کر اس کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کرتا ہے ۔

پاکستان میں پولیو کے نتائج اوراعداد و شمار پر نظرڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ 14برسوں میں پولیو کی شرح پاکستان میںجوں کی توںموجود ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دس سال پہلے یہ شرح سالانہ199 افراد تھی اور آج بھی اس کی شرح تقریباً 199 سے 200 افراد سالانہ ہے جبکہ نائجیریا میں صورتحال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔شروع میں جب پولیو ویکسینیشن کو متعارف کروایا گیا تو عوام اور علماء اکرام نے اس کی شدید مخالفت کی اس کے بعد علماء کرام کو حکومت نے پولیو ویکسینیشن کے لئے قائل کیا جنہوں نے بعد میں فتوی کے ذریعے اسے جائز قرار دے دیا ۔

پنجاب پولیو ویکسینیشن کے کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جو نیشنل بائیولوجیکل لیبارٹریز ہیں ان میں پولیو ویکسین پر بنیادی تحقیق کی جاتی ہے تا کہ پتہ چل سکے کہ اس ویکسین میں کیا کیا فائدہ مند اورکیا نقصان دہ کیمیکل کی آمیزش ہے۔مکمل اطمینان کے بعدویکسین کوملک کے کونے کونے میں پہنچا دیا جاتا ہے۔

پولیو مائلائٹس (پولیو) ایک وبائی مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضاء کے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ بن سکتا ہے یا چند صورتوں میںمحض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔پولیو سے متاثر ہونے والے ہر 200 افراد میں سے ایک ناقابل علاج فالج کا شکار ہوجاتا ہے۔ فا لج کا شکار ہونے والوں میں سے 5 فیصد سے 10 فیصد وائرس کی وجہ سے اپنے سانس کے پٹھوں کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ پولیو ٹانگوں اور بازوؤں کو مفلوج کرنے کی وجہ بھی بنتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں اور یہ بچوں کو زندگی بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے۔

پاکستان کو 90 فیصد پولیو ویکسین ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے امداد کے طورپر دی جاتی ہے جبکہ باقی10فیصد ویکسین حکومت پاکستان خود خریدتی ہے۔ پاکستان میںپولیو ویکسینیشن کی مخالفت کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا ۔کہا جاتا ہے کہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری ڈاکٹر نے پولیو کے قطرے پلانے کے بہانے ایبٹ آباد میں موجود اسامہ بن لادن کے گھر کی جاسوسی کی اور سی آئی اے کو اس کی تمام معلومات دیں جس کے بعد اسامہ بن لادن کو ایک آپریشن کے دوران نشانہ بنایاگیا۔

اس واقعہ کے بعد عوام کا اعتماد پولیو ورکرز اور ویکسینز سے ایک مرتبہ پھر ختم ہونے لگا اور پولیو ورکرز پر حملے شروع ہوگئے۔ اس دوران پولیو کی ٹیموں پر 2030 حملے ریکارڈ ہوئے جس میں 280ورکرز جاں بحق ہوئے ۔پاکستان میں پولیو ویکسینیشن کی مخالفت کے پیچھے اور بہت ہی اہم رپورٹس بھی ہیں جو دنیا بھر کے معروف ریسرچ پیپرز اورپاکستانی میڈیا کی جانب سے نشرہو چکی ہیں۔14جنوری 2015 ء کو پاکستان کے نجی اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کی جانب سے پولیو ویکسین کو حلال قرار دے دیا گیا ہے اور حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ پیدائش سے لے کر پانچ برس کی عمر تک کے بچوں کو پولیو ویکسین ضرور پلائیں ۔

پاکستان کے مقامی ڈاکٹرز کے مطابق پولیوویکسینیشن انتہائی ناگزیر ہے کیوں کہ پولیو لا علاج مرض ہے۔ پولیو کو صرف حفاظتی قطروں سے ہی روکا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے محفوظ اور موثر ویکسین موجود ہے ۔ منہ کے ذریعے پلائے جانے والے پولیو کے قطرے (OPV) یعنی پولیو ویکیسن بچوں کو پولیو کے خلاف تحفظ دینے کے لئے ضروری ہے۔ کئی مرتبہ پلانے سے یہ بچے کو عمر بھر کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ پولیو اس وقت تک پھیلتا رہے گا جب تک ہر جگہ سے اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ ہر بچے کو قطرے پلائے جائیں تاکہ جب وائرس ان کے علاقے میں پھیلے تو وہ اس سے محفوظ رہیں۔ ایک مرتبہ جب وائرس کسی علاقے میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے، تو یہ ان بچوں کو باآسانی متاثر کر سکتا ہے جنہوں نے پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پیئے ہوتے۔

حکومت پاکستان پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کے لئے ’’قومی مہم برائے انسداد پولیو‘‘(NIDs) کا انعقاد کرتی ہے۔ یونیسف، عالمی ادارہ صحت، روٹری، ریڈکراس اور ہلال احمر اور انسانی ہمدردی رکھنے والے اور سول سوسائٹی کے دیگر گروپوں سمیت بہت سے غیرملکی اور مقامی ادارے ان مہموں کی منصوبہ بندی اوران پر عمل درآمد کے لئے حکومت کی مدد کرتے ہیں۔پولیو ویکسین تمام ویکسینز میں سب سے محفوظ ترین ویکسین ہے۔ اسے بیمار اور نوزائیدہ بچوں کو بھی پلایا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین دنیا بھر میں بچوں کو پولیو سے تحفظ دینے کیلئے استعمال کی جارہی ہے، اور اس کے ذریعے کم از کم 8 ملین بچوں کو مستقل طور پر معذور ہونے سے بچایا گیا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ پولیو ویکسینیشن کے ذریعے دنیا بھر کے بچوں کو ہمیشہ کی معذوری سے بچایا گیا ہے۔

اب دنیا کے صرف تین ممالک نائجیریا ‘افغانستان اور پاکستان ہی پولیو متاثرہ ممالک میں شامل ہیں جس کی وجہ سے جب بھی ان ممالک سے لوگ دنیا کے دوسرے ممالک میں جاتے ہیں تو ایئر پورٹ پر انہیں پولیو ویکسین پلائی جاتی ہے تا کہ یہ بیماری دوسرے ممالک کے لوگوں میں نہ پھیلے۔پولیو وائرس منہ کے ذریعے سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے اس لئے زیادہ تر یہ ویکسین منہ کے ذریعے سے پلائی جاتی ہے۔ عالمی صحت کے ادارے دنیا بھر سے اس مہلک بیماری کا خاتمہ چاہتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر دنیا میں پولیو متاثرہ ایک شخص بھی رہا تو اس کے ذریعے سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔