مسجد قبۃ الصخرۃ کا مسئلہ

نئی اور انوکھی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی ساری تاریخ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و ستم کی تاریخ ہے۔


Zaheer Akhter Bedari January 26, 2019
[email protected]

انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ اعزاز اس کی کس خوبی کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ انسان کی کرہ ارض پر قیام کی معلوم تاریخ 15 سو سال ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انسان کی یہ معلوم تاریخ جنگوں، نفرتوں ،عداوتوں ، تعصبات اور دشمنیوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیا اشرف المخلوقات کا خطاب پانے والی یہ مخلوق جب عملاً جنگل کے جانوروں سے بدتر وحشی ہے تو پھر اسے اتنا بڑا اعزاز ''اشرف المخلوقات'' یعنی کرہ ارض پر بسنے والی تمام مخلوقات میں ممتاز اور برتر کیوں کہا گیا ہے؟ آج دنیا کے کسی حصے میں چلے جائیں وہاں انسان انھی ''خوبیوں'' سے آراستہ نظر آئے گا۔

انسان کا منطقی ورثہ امن، محبت، رواداری اور معاشی انصاف ہونا چاہیے تھا لیکن انسان میں یہ خوبیاں سرے سے پائی ہی نہیں جاتیں مستثنیات کے علاوہ تمام انسان ان ''خوبیوں'' کے مالک ہیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔دنیا میں اسرائیل غالباً واحد ملک ہے جو اپنی خون آشام تاریخ کے ساتھ زندہ ہے۔ ویسے تو فلسطین کے خلاف اسرائیل ہمیشہ ہی ''مصروف'' رہتا ہے لیکن بعض وقت وہ حد سے تجاوزکرتی ایسی حرکتیں کرتا ہے جس کا واحد مقصد فلسطینیوں کو مشتعل کرنا ہوتا ہے ۔18 جنوری 2019 اس حوالے سے ایک شرمناک دن تھا جب یہودی آباد کار مسلمانوں کے قابل احترام مقام قبلہ اول پر دھاوا بول کر مسجد قبۃالصخرۃ میں گھس گئے اور اپنے طریقہ عبادت کے مطابق اس فلسطینی مسجد میں عبادت کی۔

اسرائیل کی اس زیادتی کے جواب میں بیت المقدس میں فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیلی چوکی پر پٹرول بم پھینکا۔ ایک فلسطینی صحافی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اسرائیل کی وحشت و بربریت کا اندازہ اسرائیل کے اس اقدام سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک فلسطینی قیدی ماہر عبداللطیف کو 36 سال سے اپنی جیل میں قید کر رکھا ہے۔ عبادات عموماً ہر مذہب کے لوگ اپنے طریقہ عبادت کے مطابق ذہنی تسکین کے لیے کرتے ہیں، اس زیادتی کے خلاف فلسطینیوں نے ایک احتجاجی ریلی نکالی اسرائیلی فوج نے ریلی کی قیادت کرنے کے جرم میں مسجد اقصیٰ کے ڈائریکٹر الشیخ عمر الکوانی کو گرفتار کرلیا۔

اس قسم کے ظلم کا سلسلہ 70 سال سے جاری ہے اور لاکھوں فلسطینی اسرائیل کے ظلم سے شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں دربدر ہیں۔ہر قوم کا ایک طریقہ عبادت ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے ذہنی تسکین کے لیے اپنے طریقہ عبادت کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ یہودی آبادکاروں نے اپنی عبادت گاہوںمیں عبادت کرنے کے بجائے فلسطینی عبادت گاہ مسجد قبۃالصخرۃ میں زبردستی گھس کر اپنے طریقے سے عبادت کی جس کا ایک مقصد عوام میں نفرتیں بڑھانا اور مذہب کی جڑیں مضبوط کرنا ہے۔ عبادت اور عبادت گاہیں ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے ایک حساس جگہ ہوتی ہیں اس لیے امن پسند قومیں دوسروں کی عبادت گاہوں کا احترام کرتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ہر قوم کے لیے ایک ملک ہونا ضروری ہے کیونکہ ملک نہ صرف انسان کی شناخت کا حوالہ ہے بلکہ مہذب معاشروں میں دنیا کے کاروبار زیست کے لیے بھی ملک کی اہمیت سے انکار نہیں۔ اس پس منظر میں اگر اسرائیلیوں نے ملک حاصل کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات ہے نہ انوکھی بات ہے۔

نئی اور انوکھی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی ساری تاریخ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و ستم کی تاریخ ہے۔ ہم نے بڑے واضح انداز میں کہا ہے کہ ملک انسانوں کی ناگزیر ضرورت ہے لیکن اس حوالے سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسرائیلیوں نے اپنے ملک کی تعمیر فلسطینیوں کی لاشوں پر کی۔ یہ رواج کہ کسی ملک کی بنیادوں میں خون بھرا جانا چاہیے دنیا کا ایسا شرمناک رواج ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسرائیلی نسلاً عرب ہیں اور عرب بھی انسان ہیں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسرائیلی عوام اور اپوزیشن اسرائیل کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اسرائیل اس حوالے سے اس قدر ڈھیٹ ہے کہ نہ اس پر فلسطینیوں کی آہ و بکا کا کوئی اثر ہوتا ہے نہ دنیا کی سخت مذمت اس پر کوئی اثر کرتی ہے۔

دنیا میں جنگیں اور نفرتیں صرف انفرادی یا گروہی یا ملکوں کا اجتماعی ہی کلچر نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایسے اسرار ہیں جس پر عام انسانوں کی نظر نہیں جاتی جنگیں علاقائی تنازعات یہ سامراجی ملکوں کی ضرورت ہیں۔ اس حوالے سے صرف ایک مسئلہ ہتھیار کی تیاری اور تجارت کو لے لیں سامراجی ملک ہتھیاروں کی فروخت سے اربوں ڈالر کما رہے ہیں اگر ہتھیاروں کی تیاری اور علاقائی جنگیں ختم ہوجائیں تو سامراجی ملکوں کا دیوالیہ نکل جائے گا لہٰذا نہ علاقائی تنازعات ختم ہوسکتے ہیں نہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت ختم ہوسکتی ہے۔

جنگوں ہتھیاروں کی تیاری و تجارت اس قدر مستحکم ہے اور اس کی ڈیمانڈ کا عالم یہ ہے کہ غریب سے غریب ملک بھی اربوں ڈالر کا اسلحہ اپنے تحفظ کے لیے خریدتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلحہ اور اس کی خرید وفروخت، سرمایہ دارانہ نظام کی نارمل ایکٹیویٹی میں شامل ہیں اور جنگوں کو بھی دنیا کے لیے ناگزیر بنادیا گیا ہے۔ بلاشبہ عام آدمی اس اسرارکو سمجھ نہیں سکتا لیکن کیا دنیا کے سیاستدان گدھے اور عقل سے اس قدر پیدل ہیں کہ وہ ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت جنگوں کی ضرورت کو نہ سمجھ سکیں؟ اس کے پیچھے بھی ایک گہری اور منظم سازش ہے غریب سے غریب ملک بھی اربوں کا اسلحہ خرید رہا ہے۔ اسلحے کی خریداری پر خرچ ہونے والا اربوں ڈالر کا سرمایہ اگر اسلحے کی خریداری سے بچ جائے تو عوام کے معیار زندگی میں اضافہ اور خوشحالی آسکتی ہے۔کیا سرمایہ دار طبقہ کمائی کے اس سادہ طریقے کو ترک کرکے مشکل راستوں کی طرف جائے گا؟

سامراجی ملکوں نے حالات ایسے پیدا کیے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہو رہا ہے ہم نے اپنی بات کا آغاز ایک فلسطینی مسجد پر یہودی آبادکاروں کی فلسطینی مسجد میں عبادت سے کیا تھا۔ عبادت گاہوں کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے خدا کے گھروں کو خدا کی عبادت سے روکا نہیں جاسکتا لیکن سامراجی ملکوں نے عوام کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے کے لیے عبادت کو بھی تقسیم کرکے عبادت گاہوں کو نفرتوں کے مراکز میں بدل دیا ہے جہاں انسان خدا کی عبادت کم اور خداؤں میں اختلافات اور دشمنیاں زیادہ پیدا کرتا ہے۔ کیا دانشور طبقہ ان حقائق کو سمجھتا ہے؟

مقبول خبریں