سرفراز احمد قومی ٹیم کے کپتان رہیں گے یا نہیں؟

سلیم خالق  جمعـء 1 فروری 2019
کپتان کو تنازع کے بعد واپس بلانا درست فیصلہ تھا،ذہنی سکون دیا گیا،ٹیم کا نائب قائد اور پلیئرز کا بیک اپ بھی ہونا چاہیے

کپتان کو تنازع کے بعد واپس بلانا درست فیصلہ تھا،ذہنی سکون دیا گیا،ٹیم کا نائب قائد اور پلیئرز کا بیک اپ بھی ہونا چاہیے

پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے سربراہ محسن خان نے کہا ہے کہ سرفرازاحمد کی ٹیم میں بطورکپتان واپسی کے معاملے پر میٹنگ میں تبادلہ خیال ہوگا۔

یہ فیصلہ چیئرمین احسان مانی کی صوابدید ہے، ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں، پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ بطورقائد وکٹ کیپرکا نام پیش کرنے کا ابھی نہیں کہہ سکتا، کسی تجربہ کارکرکٹر پر بھی تینوں طرز میں قیادت کا بوجھ ایک ساتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ ان کے مطابق سرفراز کو تنازع کے بعد جنوبی افریقہ سے واپس بلانا درست فیصلہ ہے، انھیں ذہنی سکون دیا گیا، ٹیم کا نائب کپتان اور پلیئرز کا بیک اپ بھی ہونا چاہیے۔

تفصیلات کے مطابق محسن خان نے کہا کہ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کا تقرر چیئرمین کی صوابدید ہے ہم انھیں صرف مشورے دے سکتے ہیں، البتہ سلیکشن کمیٹی اورکوچنگ کا شعبہ کرکٹ کمیٹی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، ہم جو کچھ بھی غلط محسوس کریں انھیں بتا سکتے ہیں، انھوں نے کہاکہ سرفرازاحمد کے معاملے پر ہم تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے، انھیں جنوبی افریقہ سے واپس بلانا پی سی بی کا درست فیصلہ ہے،کپتان سے بڑی غلطی ہو گئی تھی، ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تینوں ٹیسٹ میں شکست ہو گئی، ان کا اپنا کھیل بھی زیادہ خاص نہیں تھا، ایسے میں چار میچز کی پابندی بھی لگ گئی۔

ان حالات میں سرفراز کا جنوبی افریقہ میں مزید رہنا مناسب نہیں تھا، اس ماحول سے نکال کر انھیں ذہنی سکون دیا گیا جو درست اقدام ہے، سرفراز تینوں فارمیٹس میں کپتانی کر رہے ہیں، ابھی وہ جوان اور ان کے پاس بہت وقت ہے، وہ پاکستان کرکٹ کا روشن مستقبل ہیں۔ اس سوال پر کہ شعیب ملک کو کپتان بنانے سے یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ وہی اب مستقل طور پر یہ ذمہ داری نبھائیں گے،کیا سرفراز کی بطور کپتان ہی واپسی ہوگی؟محسن خان نے کہا کہ کرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی بات ہوگی،جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ کپتان کا تقرر چیئرمین کا استحقاق ہے، ہم سے پوچھا گیا تو یقیناً وہ مشورہ دیں گے جو پاکستان کرکٹ اور سرفراز دونوں کیلیے بہترین ہو،جنوبی افریقہ سے سیریز میں شعیب ملک کوضرورت پڑنے پر بطور سینئر کرکٹر قیادت سونپی گئی اور میں اس فیصلے سے اختلاف نہیں کرتا، چیئرمین کو بطور کپتان سرفراز کا نام دینے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ابھی میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہم کس کا نام دینگے۔

تمام معاملات پر تبادلہ خیال کے بعد پھر احسان مانی سے بات ہوگی،البتہ میں اتنا ضرور بتا دوں کہ کمیٹی کی تجویز متعصبانہ یا زبردستی کسی کے حق میں نہیں ہوگی، ہم صرف پاکستان کرکٹ کی بہتری کیلیے تجویز دیں گے، سرفرازبہت باصلاحیت اور ان میں ابھی 7،8 سال کی کرکٹ باقی ہے۔ اس سوال پر کہ آپ نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ سرفراز کو ٹیسٹ میں کپتانی نہیں کرنی چاہیے، ٹیم کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کیا وہ چیئرمین کو یہ تجویز دینگے، محسن خان نے کہا کہ2 سال پہلے سرفراز مزیدکم عمر تھے، پھر ایکدم سے اسٹار بن گئے، جب میں چیف سلیکٹر تھا تو میں نے ہی انھیں اے ٹیم کیلیے منتخب کیا،ون ڈے میچز کیلیے بھی لے کر آیا، ان کا مستقبل روشن ہے، البتہ میری رائے کے مطابق ایک تجربہ کارکرکٹر پر بھی تینوں طرز میں کپتانی کا بوجھ ایک ساتھ نہیں ڈالنا چاہیے، میں نے 2سال پہلے کہا تھا کہ سرفراز کو پہلے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی قیادت سونپ دیں وہ 1،2 سال مزید گروم ہو جائیں گے، مگر اس وقت کی کرکٹ بورڈ انتظامیہ کے خیالات الگ تھے۔

سابق ٹیسٹ اوپنر نے مزید کہا کہ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہم نے اظہر علی اور اسد شفیق کو نہ صرف بطور پلیئر بلکہ کپتانی کیلیے بھی بطور متبادل تیار کیا تھا، مگر دونوں کو اندر، باہر کر کے ڈسٹرب کر دیا گیا، کپتان کچھ تو بنے بنائے مل جاتے ہیں چند کو تیار کرنا پڑتا ہے، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ٹیم کا نائب کپتان اور پلیئرز کا بیک اپ بھی ہونا چاہیے، بطور چیف سلیکٹر میں نے اپنے ساتھیوں سے یہی کہا تھا کہ 16 رکنی اسکواڈ کے ساتھ ہمیں ہر شعبے میں تقریباً7،8 پلیئرز تیار رکھنے ہیں جنھیں ضرورت پڑنے پر موقع دیا جا سکے۔

کرکٹ کمیٹی زیادہ متحرک نظر نہیں آرہی تاثرسے اتفاق کرتا ہوں

محسن خان نے کہا ہے کہ کرکٹ کمیٹی زیادہ متحرک نظر نہیں آ رہی میں اس تاثر سے اتفاق کرتا ہوں، یہ بھی درست ہے کہ ہماری زیادہ میٹنگز نہیں ہوئی ہیں، البتہ چیئرمین نے مجھے اختیار دیا ہے کہ جب چاہوں اجلاس طلب کر سکتا ہوں،میں اپنی پوری ٹیم کو ساتھ لے کر چلوں گا، فیصلہ میرا ہوگا، اسے پھر چیئرمین کے سامنے رکھیں گے،انھوں نے مزیدکہا کہ ہم فیصلہ ساز نہیں ہیں اور چیئرمین کو صرف مشورے دے سکتے ہیں۔

آرتھر کو ’’ڈونکی‘‘ کہنے کی وضاحت،معافی مانگنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا

محسن خان نے کوچ مکی آرتھر کو ٹی وی شو میں ’’ڈونکی‘‘ کہنے کی وضاحت کر دی، انھوں نے کہا کہ وہ بات میں نے جب کہی تب میراکرکٹ بورڈ سے کوئی تعلق نہیں تھا، روانی میں ایک لفظ کہہ دیا، بعد میں میڈیا کے کچھ لوگوں نے اسے ایشو بنا دیا، میں نے تنگ آ کر ایک دن چیئرمین سے بات کی، انھوں نے کہا کہ ایسی باتوں پر توجہ نہ دو،پھر ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے وضاحت بھی کر دی تھی، کوچ سے معافی مانگنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا،انھوں نے تسلیم کیا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کا مکی آرتھر سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

سلیکشن کے معاملات پر بعض تحفظات برقرار ہیں

محسن خان نے کہا ہے کہ یو اے ای میں ٹیم کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی تھی، میں توقع کر رہا تھا کہ دورے کے بعد ہماری کوچز اور کپتان سے ملاقات ہو گی،ہمیں کارکردگی پر بہت تحفظات تھے، مگر پھر جنوبی افریقہ ٹور قریب تھا، مجھے بتایا گیاکہ غیرملکی کوچز گھر جانا چاہ رہے تھے،ان سے مل کرمیں پوچھنا چاہتا تھا کہ ٹیم کے مسائل کیا ہیں لیکن ہماری میٹنگ نہیں ہو سکی۔

انضمام سے ملاقات نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے کوچز اور سلیکشن کمیٹی سے ایک ساتھ میٹنگ کا کہا تھا، سلیکشن پر مجھے کچھ تحفظات تھے جو اب بھی ہیں، بعض چیزیں بہتر ہونا چاہئیں،امید ہے کہ ایسا ہوگا،ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمرز کو سلیکٹرز کی جانب سے نظرانداز کیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ بالکل ان سے پوچھوں گا، ہم ہر معاملے پر بات کریں گے،اس کی وجہ زبردستی کا اعتراض نہیں بلکہ کرکٹ کی بہتری کیلیے ایسا ہوگا،ٹیم کی جنوبی افریقہ سے واپسی کے بعد چیئرمین سے بات کر کے اجلاس طلب کروں گا، پھر ہم تمام معاملات پر تبادلہ خیال کریں گے۔

سرفرازکی واپسی، وسیم اکرم کے بیان پر کھل کر تبصرے سے گریز

وسیم اکرم نے سرفراز احمدکو جنوبی افریقہ سے واپس بلانے کا پی سی بی کا فیصلہ غلط قرار دیا، اس حوالے سے سوال پر محسن خان نے کہا کہ میں نے بھی یہ سنا، ہماری پہلی ملاقات میں فیصلہ ہوا تھا کہ میٹنگ میں جوبھی تبادلہ خیال ہوا اس سے ہم چیئرمین کو آگاہ کریں گے اور پھر بورڈ ہی اس کا اعلامیہ جاری کرے گا، ہم میں سے کوئی الگ الگ بات نہیں کرے گا، اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ڈومیسٹک کرکٹ:گورننگ بورڈ میٹنگمیں نہ بلانا حیرانی کی بات تھی

محسن خان نے کہا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کے حوالے سے تبدیلیوں پر بات کرنے کیلیے گورننگ بورڈ میٹنگ میں نہ بلایا جانا حیرانی کی بات تھی، میں نے اس حوالے سے ایک پلان بنایا تھا جسے گورننگ بورڈ اور چیئرمین کے سامنے رکھنا چاہتا تھا، مجھے یقین تھا کہ وہ سب کو پسند آتا، خیر اب کوئی فیصلہ تو ہوا ہے شایداچھا ہی ہوگا،ابھی سنی سنائی باتیں ہیں جب چیئرمین بتائیں گے تو ہی اس پر بات کروں گا۔

وسیم اکرم کو متعارف کرانے والا شخص میں ہی ہوں

محسن خان نے کہا ہے کہ وسیم اکرم کو پاکستان کرکٹ میں متعارف کرانے والا شخص میں ہوں، ہم لاہور میں ظہیر عباس کی زیرقیادت ٹیسٹ کھیل رہے تھے،میرے ایک دوست نے بطور نیٹ بولر ایک نوجوان کو بلا کر کارکردگی دیکھنے کی درخواست کی، میں نے اسے اجازت دے دی،وہ نوجوان وسیم اکرم تھا، پیسر اس وقت دبلے پتلے مگر بالکل فٹ تھے، نیٹ میں انھوں نے ہمیں جو غیرمعمولی بولنگ کی اسے دیکھ کر سب دنگ رہ گئے، میں نے بعد میں ظہیرعباس سے کہا کہ یہ تو زبردست لڑکا ہے پاکستان ٹیم کے بہت کام آئے گا،میں پریکٹس کے بعد قذافی اسٹیڈیم میں چیئرمین صفدر بٹ کے دفتر میں گیا۔

میں نے ان سے کہا کہ سر یہ لڑکا بہترین بولر ہے اسے پاکستان ٹیم میں ہونا چاہیے، انھوں نے کہا ٹھیک ہے دیکھتے ہیں ، پھر سب نے وسیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا، میں وسیم کو ٹیم میں لانے کا مکمل کریڈٹ نہیں لوں گا ، آپ کسی کو متعارف تو کرا سکتے ہیں لیکن آگے بڑھنا اس کی پرفارمنس پر منحصر ہوتا ہے،وسیم اکرم اس کے بعد ورلڈکلاس کرکٹر بن گئے، ٹیم میں اسے میں نے ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بیٹوں کی طرح سمجھا، کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ میں وسیم اکرم نے کوئی گلے شکوے نہیں کیے، ہم نے گفتگو شروع کر دی ایسا لگا ہی نہیں کوئی بات ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وسیم اکرم کے بارے میں مجھے تحفظات تھے لیکن چیئرمین سے ملاقات کے بعد میں نے پریس کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ 99 فیصد حد تک مطمئن ہو گیا ہوں۔

محسن نے کرکٹ کمیٹی کو ختم کیے جانے کی میڈیا رپورٹس مسترد کر دیں

محسن خان نے کرکٹ کمیٹی کو ختم کیے جانے کی میڈیا رپورٹس مسترد کر دیں، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اگر کبھی ایسا ہو بھی گیا تو کرکٹ بورڈ کی طرف سے اعلان ہوجائے گا میڈیا کے ایک مخصوص حصے کو پریشانی کیا ہے، میں ہرکام عزت سے میرٹ پر کروں گا، اس پرنہ خود نہ کسی اور کو مفاہمت کرنے دوں گا۔

انھوں نے کہا کہ میں اس سے پہلے والے بورڈ کے ساتھ کیوں منسلک نہیں ہوا اس کی وجہ سب جانتے ہیں، میں نے یہی کہا تھا کہ کرپٹ سسٹم کے ساتھ کام نہیں کروں گا جہاں صحیح انداز میں فرائض انجام نہیں دیے جا رہے، پھر احسان مانی آئے جن کی دنیا بھر میں عزت ہے، وہ کرکٹ کو سمجھتے ہیں، بورڈ کے سرپرست اعلیٰ عمران خان کی جانب سے بھی میرٹ پر کام کرنے کا پیغام ملا اسی لیے عہدہ سنبھالا۔محسن خان نے کہا کہ اب میں بورڈ کے ساتھ کام کر رہا ہوں اس کے وقار کا خیال رکھنا میرا فرض بنتا ہے۔ جہاں سچ اور میرٹ کی بات ہو اب بھی میں ڈٹ کر سامنے آتا ہوں،میرے بطور چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ سارے نتائج قوم کے سامنے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔