اصلاحات سے کام نہیں چلے گا
پولیس کا کام ملک میں امن وامان بحال رکھنا، پرامن شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہوتا ہے
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری شہر میں تجاوزات اور امن وامان کی صورتحال پرکیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا ''پولیس کا رویہ اور کارکردگی انتہائی شرمناک ہے، بغیر وجہ بتائے انسان کو مار دیتے ہیں، 5 سالہ بچی کو بھی نہیں چھوڑا، کیا وہ دہشتگرد تھی؟ ختم کردیں ایسی پولیس کو، کوئی دوسری فورس لائیں۔ یہ عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں لیکن عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ پولیس کو سیدھی گولیاں چلانے کا اختیار کس نے دیا؟'' جسٹس گلزار احمد ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج ہیں، ان کے یہ ریمارکس اس قدر سخت اور سنگین ہیں کہ ملک میں پولیس نام کی فورس کے وجود پر سوال اٹھتا ہے۔ پولیس کا کام ملک میں امن وامان بحال رکھنا، پرامن شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔
اس حوالے سے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پولیس اوپر بتائے گئے کسی فرض کی تکمیل میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اس کے برخلاف اس پر مختلف بہانوں سے عوام کو قتل کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں، خاص طور پر جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ عوام کو قتل کرنے میں پولیس بری طرح بد نام ہے۔ جسٹس گلزار کے ان ریمارکس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ''پولیس نے 5 سالہ بچی کو بھی نہیں چھوڑا۔ کیا وہ دہشتگرد تھی؟'' جسٹس گلزار نے فرمایا کہ ''ختم کردیں ایسی پولیس کو، کوئی دوسری فورس لائیں۔پولیس کو سیدھی گولیاں چلانے کا اختیار کس نے دیا ہے؟'' پنجاب کی پولیس کے بعد عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے الزامات اب کراچی پولیس پر لگنے لگے ہیں جس کی ذمے داری حکومت سندھ پر آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس میں یہ برائیاں کیسے در آئیں؟ ہمارے ملک میں اشرافیہ کلچر پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی متعارف ہوا اور اشرافیہ مزاجاً اور روایتی طور پر ہر حوالے سے بالادست رہنا چاہتی ہے، پولیس پر بالادستی پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا اشرافیہ کی عادت بھی ہے، ضرورت بھی۔ پولیس کا پرائیویٹ استعمال وہ اہم وجہ ہے جس سے پولیس نے اپنی ادارہ جاتی ذمے داریوں سے پہلو تہی شروع کی۔ اس پہلو تہی کی مثالیں ویسے تو قدم قدم پر ملتی ہیں لیکن یہ پہلو تہی بڑھتے بڑھتے سرکشی کی حدود میں داخل ہوگئی جس کا خطرناک اور آسان طریقہ پولیس مقابلے ہیں۔
حال ہی میں ساہیوال کا وہ خطرناک اور شرمناک سانحۃ پیش آیا، اس کے بعد کراچی میں اس کی تکرار کی گئی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس قانون اور انصاف کی حدیں پار کرنے میں آزاد کیوں ہوگئی اس کا جواب حکمران اشرافیہ کی طرف سے پولیس کا سیاسی استعمال ہے۔ اس طرح پولیس اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے پہلو تہی کرکے اپنے فرائض سے نہ صرف آزاد ہوگئی ہے بلکہ اس مقام تک آگئی جہاں سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار کو کہنا پڑا کہ ''ختم کردیں ایسی پولیس کو اور کوئی دوسری فورس لائیں۔'' جسٹس گلزار کے اس سوال کا جواب کس کی ذمے داری ہے کہ کیا 5 سال کی بچی دہشتگرد تھی، جسے مار دیا گیا؟ ہم نے بار بار یاددہانی کرادی کہ پولیس کے اس راستے پر چلنے کی ایک بڑی وجہ پولیس کا سیاسی استعمال ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ جب کوئی المیہ ہوتا ہے تو پولیس اصلاحات کا ذکر خیر کرتے ہیں ان کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پولیس اصلاحات کے نفاذ سے پولیس سے متعلق عوام کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ اس سے قبل بھی یہ مشق دہرائی جاتی رہی ہے لیکن ان اصلاحات سے نہ عوام کو کوئی فائدہ ہوا نہ پولیس کی کارکردگی میں کوئی بہتری آئی۔ کیونکہ یہ اصلاحات خیالی ہوتی ہیں ۔ اصلاحات کی بات سن کر اہل دانش کو ہنسی آتی ہے، اصلاحات کی بات کرنے والوں کی نظر اس قدر محدود اور ان کا وژن اس قدر غیر حقیقی ہے کہ اصلاحات کی بات ایک مذاق لگتی ہے جو حالات ہیں وہ اس قدر المناک ہیں کہ جب تک پورا پولیس کا ڈھانچہ نہیں بدلے گا اصلاحات کی حیثیت ایک مذاق سے زیادہ نہیں۔
پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا پولیس کا نظام انگریزوںکے نظام کے ساتھ ایک ایسی احمقانہ ملاوٹ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے، والی بات ہے ہمارے اصلاحی پولیس نظام کا حال یہ ہے کہ ایف آئی آر کا اولین نظام تک نہ بدلا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پولیس میں جو نظام جاری و ساری ہے وہ اس قدر طاقتورکا حمایتی ہے کہ اسے اصلاحاتی نظام کہنا اصلاحات کی توہین ہے،71 سال کے دوران جو پولیس نظام مضبوط ہوا ہے وہ دباؤ اور کمائی کا نظام ہے اور محکمہ پولیس میں یہ فروعی نظام اس قدر مضبوط ہوگیا ہے کہ اس میں اصلاحات لانے کے لیے نیچے سے اوپر تک بامعنی اور حقیقت پسندانہ تبدیلی کی ہے۔
چونکہ پولیس کا نظام سرمایہ دارانہ نظام کی نمایندگی کرتا ہے اس لیے وہ ساری خرابیاں اور برائیاں اس میں سمٹ آئی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ بنی ہوئی ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اب ہماری پولیس کسی قسم کی اصلاحات سے درست نہیں ہوسکتی یہ اسی وقت درست ہوگا جب اس کی جگہ کوئی دوسری نئی تربیت یافتہ فورس لائی جائے گی۔
یہ سر سے پیر تک کرپشن اور ظلم کی پیداوار فورس اپنے قول و عمل میں اس قدر پختہ کار ہوگئی ہے کہ اس کا بدلنا محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمارے ملک میں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی پولیس کی تربیت دی جائے تب ہی ہماری پولیس نئی دنیا کی پولیس میں بدل سکتی ہے موجودہ پولیس کو زرعی زمین انفرادی طور پر یا فارموں کی شکل میں دے کر اجتماعی کاشت کو اپنایا جائے تو زری پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا اور ایک تعلیم یافتہ پولیس وجود میں آجائے گی۔ نئی پولیس کو معقول تنخواہیں دیں تو کرپشن ختم ہوسکتی ہے اس پر بھی کوئی کرپشن کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی چھٹی کرنے میں دیر نہ کی جائے۔