سرودِ سحر آفریں

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 1 مارچ 2019

پروفیسر غلام رسول ملک نے اپنی کتاب ’’سرودِ سحر آفریں‘‘ میں فکر و فن اقبال کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اقبال جیسی کثیر الجہت شخصیت کی عظمت کا تعین کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ وہ بیک وقت ایک دقیقہ رس فلسفی، ایک انقلاب آفریں معاشرتی اور سیاسی مفکر اور ایک بلند پایہ تخلیقی فن کار تھے۔ ان تمام حیثیتوں میں وہ حقیقی معنوں میں عظیم تھے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کی فکرکا غائر اور تنقیدی مطالعہ کرکے قرآن و سنت سے ماخوذ بنیادوں پر ایک نیا فلسفہ وضع کیا جو مختصر ہونے کے باوجود بہت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ ایک فلسفی کی حیثیت سے نہ تو وہ مغربی فلسفے سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی روایتی مشرقی فکر کو آنکھیں بند کرکے قبول کیا بلکہ اسلام کی عملی روح کی اساس پر ایک جاندار اور متحرک (Dynamic) نظام فکر ترتیب دیا جس کا ہیولیٰ ان کے خطبات اور بلند پایہ منظومات میں موجود ہے۔‘‘

پروفیسر غلام رسول ملک نے ادب کے ایک سنجیدہ قاری اور نقاد کی حیثیت سے اقبال اور اقبالیات کا مطالعہ کیا ہے۔ انگریزی اور اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر دسترس اور شعر و ادب کے جدید اور قدیم معیاروں سے واقف ہونے کے باعث ان کا بیان سنجیدہ اور رائے متوازن ہوتی ہے۔

’’سرودِ سحر آفریں‘‘ پروفیسر صاحب کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اپنے دیباچہ میں وہ فرماتے ہیں کہ ان مضامین کا محوری نکتہ یہ ہے کہ اقبال بحیثیت مجموعی ایک اسلامی مفکر اور فن کار تھے۔ اسلامی زاویہ نگاہ سے ان کے فکر و فن کی بعض جزوئیات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور انسانوں میں اللہ کے رسول کے سوا کون ایسا ہے جو تنقید سے بالاتر ہو مگر مجموعی اعتبار سے وہ نیتاً اور عملاً ایک اسلامی مفکر اور فن کار تھے۔

غلام رسول ملک لکھتے ہیں ’’ایک فلسفی کی حیثیت سے اقبال کا مخصوص کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دور حاضر کے پیچیدہ مسائل سے تعرض کرکے ان پر اس ژرف نگاہی سے اظہار خیال کیا جس کی نظیر اسلام کی گزشتہ تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ ایک معاشرتی اور سیاسی مفکر و مدبر کی حیثیت سے اقبال نے نہ صرف یہ کہ پورے عالم اسلام کو اس حد تک متاثرکیا کہ اب انھیں اسلام کی نشاط ثانیہ کے سب سے بڑے مشعل بردار کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے بلکہ ان کی انقلابی فکر نے ہندوستان کا جغرافیہ بھی بدل ڈالا۔ شاعر کی حیثیت سے اقبال کی عظمت میں توکوئی کلام ہی نہیں۔ انھیں ادب کا ہر سلیم الفکر طالب علم دور حاضر کا عظیم ترین فن کار سمجھتا ہے۔ لیکن جو خصوصیت انھیں زمان و مکان کی حد بندیوں سے اٹھا کر ثباتِ دوام عطا کرتی ہے وہ ان کا دور حاضر کے آشوب کا صحیح عرفان اور اس کے مرض کی تشخیص ہے۔ اپنی فلسفیانہ تحریروں اور شاعری میں انھوں نے اس مرض کی اصل جڑ پر انگلی رکھ دی ہے۔ ان کی نظر میں عصر حاضر کا اصل مسئلہ زندگی سے مذہب کی دوری ہے۔

غلام رسول ملک کہتے ہیں کہ اسی کے ساتھ ساتھ اقبال نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ افراد کی تربیت اور ملت کی تعمیرکا کام صحیح اسلامی خطوط پر پھر شروع کیا جانا چاہیے۔ اس تربیت اور تعمیر نو کا خاکہ انھوں نے اپنی سب سے پہلی طبع ہونے والی تصنیف مثنویٰ ’’اسرار و رموز‘‘ میں پیش کیا ہے۔ افراد کی تربیت کے سلسلے میں وہ سب سے زیادہ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ان کی خودی بیدار کی جائے اور ان میں اپنے اندر مضمر امکانات کو بروئے کار لانے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ خودی عشق کے ذریعے مضبوط و مستحکم ہوتی ہے۔ عشق کا ہدف ایک انسان کامل کی ذات ہونی چاہیے اور ان کی نظر میں یہ انسان کامل رسول اللہؐ ہیں۔ تربیت خودی  کے تین مراحل ہیں۔ اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔

’’سرودِ سحر آفریں‘‘ میں جو مضامین شامل ہیں ان میں ایک مضمون کا عنوان ’’اقبال اور ورڈزورتھ‘‘ ہے۔ غلام رسول ملک فرماتے ہیں کہ مغربی فکر و ادب میں جن شخصیات نے اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں ولیم ورڈز ورتھ نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’اقبال نے ورڈز ورتھ ہی میں نہیں بلکہ رومانوی تحریک میں جس کا ورڈزورتھ ایک ممتاز نمایندہ ہے، گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس دلچسپی کی دو اہم وجوہ ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ فکر ادب کی مغربی تحریکوں میں رومانوی تحریک مزاج مشرق سے سب سے زیادہ قریب اور ہم آہنگ ہے اور دوسری یہ کہ خود اقبال فی الاصل ایک رومانی مفکر اور شاعر ہیں۔ مزاج مشرق کے ساتھ رومانی تحریک کی حیرت انگیز مماثلت نے اقبال کو اوائل عمری میں اس تحریک کی طرف متوجہ  کیا تھا۔ ان کی اپنی افتاد طبع چونکہ رومانی واقع ہوئی تھی اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دلچسپی گہری ہوتی گئی۔‘‘

اقبال جس طرح رومانی شاعر ہیں، اسی طرح مزاج مشرق کے عین مطابق ایک تغزل پسند شاعر ہیں۔ غلام رسول ملک کہتے ہیں کہ غزل اردو اور فارسی کی مقبول ترین صنف شعر ہے اور اس کا اصل موضوع شاعر کی نفسی کیفیات اور دنیائے دل کی واردات ہے۔ روایت کے عمل نے غزل کے لیے داخلیت اور غذائیت کا ایک ایسا قالب تیار کیا ہے کہ جسے توڑ دیا جائے تو غزل کی ہیئت کذائی ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

غلام رسول ملک لکھتے ہیں ’’داخلیت اور غذائیت سے مملو مشرق کی اصناف شعر اقبال کی جمالیاتی فکر اور ان کے مزاج کے عین مطابق تھیں۔ اقبال نے غزل کو روایتی بندھنوں سے آزاد کرکے لامتناہی آزادی اور وسعت کی شاہراہ پر لگادیا۔ حسن و عشق کی حکایت اور گل و بلبل کی داستان سرائی کے تنگ دائرے سے نکل کر انھوں نے غزل میں انسانی زندگی اور کائنات کے عمیق حقائق اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار و رموز فاش کیے۔ تنگنائے غزل کو نئی وسعتوں سے آشنا کیا اور اسے متنوع مضامین و مطالب کا متحمل بنادیا اور لطف یہ ہے کہ یہ سب کچھ غزل کی مخصوص نوعیت کا  لحاظ رکھتے ہوئے کیا گیا۔ ان کی غزلیات میں خشک فلسفیانہ مضامین کے  در آنے کے باوجود جذبہ احساس کی تپش اور زبان و بیان کی شیرینی موجود ہے۔ ’’زبور عجم‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک نئی اور انوکھی دنیا میں آ پہنچا ہے جہاں غزل، غزل رہتے ہوئے نئی نئی  جہتیں لیے ہوئے ہے:

ریگ عراق منتظر‘ کشتِ حجاز تشنہ کام

خونِ حسین باز دہ کوفہ و شام خویش را

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔