مال، صحت اور سکون

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 1 مارچ 2019
دنیاوی تفکرات، رنج و غم، حزن و ملال، افسردگی اور الجھنوں سے محفوظ ہونا بھی نعمت ہے۔ فوٹو:فائل

دنیاوی تفکرات، رنج و غم، حزن و ملال، افسردگی اور الجھنوں سے محفوظ ہونا بھی نعمت ہے۔ فوٹو:فائل

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صرف اپنے در کا محتاج بنائے اور لوگوں کی محتاجی سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ سے بہترین زندگی اور آخرت کی دعا مانگنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے مال، صحت اور سکون بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ جس کو اللہ کی نعمتیں میسر ہوں، اسے چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے تاکہ اللہ تعالیٰ ان میں مزید اضافہ اور برکتیں عطا فرماتے رہیں۔

ہمارے معاشرے میں اسلام کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے یا اسلام کی غلط تشریحات کا اثر کہ ہم اللہ کی بعض نعمتوں کے بارے منفی سوچ رکھتے ہیں، مثلاً ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتاہے کہ جس کے پاس مال و دولت ہو وہ دنیا دار ہے اور جس کے پاس نہ ہو وہ دین دار ہے، حالاں کہ مطلقا ً یہ تقسیم درست نہیں۔ بل کہ اگر مال و دولت کے ساتھ دل میں خوف خدا موجود ہے تو یہی مال و دولت اس کے حق میں اللہ کی رحمت بن جاتا ہے جس سے وہ بہت سے اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے قابل ہوتا ہے اور اللہ کو راضی کرکے دنیا و آخرت میں کام یاب ہوتا ہے تو ایسا مال دنیا نہیں بل کہ دین ہے۔

اگر مال و دولت کی کثرت نہیں بل کہ معمولی مقدار میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ عبادات میں رکاوٹ بنتا ہے تو یہ دنیا ہے۔ جس کی احادیث مبارکہ میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ گویا مال کا دار و مدار عملی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ عملی زندگی شریعت کے احکام کے مطابق ہے تو مال کی کثرت باعث رحمت ہے اور اگر عملی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہے تو مال کی قلت بھی باعث عذاب ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوف خدا رکھنے والے شخص کے لیے مال و دولت بُری چیز نہیں اور متّقی کے لیے مال و دولت سے بڑھ کر صحت و تن درستی زیادہ اچھی چیز ہے اور دل کی خوشی (سکون و چین) بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ (مسند احمد )

مال و دولت کے بارے میں چند باتیں ذہن نشین رکھنی چاہییں۔

٭ مال کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کریں۔ ناجائز اور حرام ذرایع آمدن سے بچیں، جیسا کہ فراڈ ، دھوکا، سود، جھوٹ، جھوٹی قسمیں اور غیر شرعی طریقے۔ یاد رکھیں مال تو ناجائز اور حرام ذرایع سے بھی مل جاتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کی ناراضی اس میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں، لڑائی جھگڑے، بے چینی و بے سکونی، افسردگی اور اولاد بے ادب اور نافرمان بن جاتی ہے۔ حرام کا لقمہ ایسا زہر ہے جس کے ہوتے ہوئے عبادت کی حلاوت کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ حالات کی بہتری کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن حرام مال، حرام لباس اور حرام خوراک کی وجہ سے اللہ انہیں قبول نہیں فرماتے۔

٭ مال کے ساتھ جن حقوق اللہ کا تعلق ہے ان کو بروقت ضرور کریں۔ واجبی صدقات جیسا کہ زکوٰۃ، قربانی، عشر، صدقہ فطر وغیرہ ہیں، ان کو اپنے وقت پر خوشی کے ساتھ ادا کریں۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ مال و دولت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہ کرنا اور جن عبادات کا تعلق مال کے ساتھ ہے مال کے کم ہونے کے خوف کی وجہ سے ان عبادات کو ادا نہ کرنا دنیا و آخرت کی بربادی ہے، مال ختم نہ بھی ہو لیکن انسان کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہوجائے گی اور یہی مال دوسروں کی ملکیت میں چلا جائے گا۔

٭ مال کے ساتھ جن حقوق العباد کا تعلق ہے ان کی ادائی بروقت کریں۔ اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اپنی حیثیت کے مطابق ان کے اخراجات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ والدین، بہن بھائی، قریبی رشتے دار، ہمسائے اور ضرورت مند طبقے پر اپنی مالی وسعت کے مطابق خرچ کرنا اسلام کی تعلیم، اللہ کی خوش نودی اور رضا کا ذریعہ اور مال میں مزید فراخی اور برکت کے حصول کا باعث ہے۔

٭ مال کو فضول خرچی سے بچائیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں جہاں ضرورت ہو وہاں ایک لاکھ بھی خرچ کرنا گناہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا گناہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں نام و نمود اور شہرت کے حصول کے لیے مال کو ضایع کیا جاتا ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا دونوں میں فضول خرچی دیکھنے کو ملتی ہے، خصوصاً شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ضرورت سے زاید اتنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ حالاں کہ اسلام ہمیں اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ غیر شرعی رسوم و رواج اور باہمی تفاخر نے ہمارے پورے معاشرے کو بُری طرح اجاڑ ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں مسلسل بے سکونی اور غیر اطمینانی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور یہ اس وقت تک نہیں تھمے گی جب تک اعتدال کو اپنا نہیں لیا جائے گا۔

مال کے بعد صحت کا درجہ ہے کہ خوف خدا رکھنے والے انسان کے لیے مال سے بھی بڑھ کر صحت و تن درستی زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ صحت کے دنوں میں جس سکون و اطمینان کے ساتھ کام کیے جاتے ہیں ظاہر ہے کہ بیماری کے دنوں میں انسان ویسے کام نہیں کر سکتا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی میں صحت کو بہت دخل ہے۔ متقی شخص کو مال سے زیادہ اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے ایسی غذائیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہوں، جو جسم میں بیماریاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں ان کے بہ جائے سادہ اور اچھی غذا کا استعمال کرنا چاہیے۔

مزید یہ کہ چست اور تن کو درست رکھنے کے لیے ورزش کرنا چاہیے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ صحت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور صحت کا شکر یہی ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی سے دور رہے اور اپنے جسم کو شریعت اسلامیہ کے احکامات پر عمل کرنے میں لگائے۔ لیکن ہماری کوتاہی ہے کہ ہم صحت کو اپنا کمال سمجھ کر اللہ کی نافرمانی میں لگ جاتے ہیں۔

دل دماغ کا پر سکون ہونا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ دنیاوی تفکرات، رنج و غم، حزن و ملال، افسردگی اور الجھنوں سے محفوظ ہونا بھی نعمت ہے جو ہر انسان کو نصیب نہیں بل کہ یہ نعمت اسے ملتی ہے جو اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہر شخص پرسکون رہنا چاہتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس سکون و اطمینان کے حصول کا وہ طریقہ نہیں اپناتا جو اللہ کریم نے مقرر فرمایا ہے یعنی ذکر اللہ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال و دولت ، عافیت و تن درستی اور سکون و اطمینان جیسی نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور فقر و تنگ دستی، بیماریوں اور پریشانیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔