کرکٹ کی رونقیں بحال ہونے پر احسن رضا خوشی سے نہال

اسپورٹس رپورٹر  ہفتہ 23 مارچ 2019
کئی برس بعد مہمان کرکٹ ٹیم جب دوبارہ پاکستان آئی توآبدیدہ ہو گیا تھا، امپائر۔ فوٹو: ایکسپریس

کئی برس بعد مہمان کرکٹ ٹیم جب دوبارہ پاکستان آئی توآبدیدہ ہو گیا تھا، امپائر۔ فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: ملک میں کرکٹ کی رونقیں بحال ہونے پر امپائر احسن رضا بھی خوشی سے نہال ہوگئے۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو میں احسن رضا نے کہاکہ پاکستان مستقل مزاجی سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی جانب گامزن ہے،میرے لیے سب سے جذباتی مناظر وہ تھے جب 2009 میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والی سری لنکن ٹیم ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے کے لیے پاکستان آئی، اس پر حملے نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا، آج 10 سال بعد حالات بہتر دیکھتے ہوئے بڑی خوشی ہوتی ہے۔

احسن رضا نے کہا کہ 2009 میں کسی بھی ملک میں پناہ لینے کی درخواست کرتا تو چانس مل جاتا، میری فیملی کے پاس انگلینڈ کا ویزہ اور مستقل سکونت اختیار کرنے کا موقع موجود تھا لیکن ملک سے محبت کا جذبہ غالب رہا، صحتیابی کے بعد ایک بار پھر انٹرنیشنل کرکٹ میں امپائرنگ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوا۔

انھوں نے کہا کہ سری لنکن ٹیم جب کئی برس بعد دوبارہ پاکستان آئی تو میرے جذبات ہی کچھ اور تھے اور اس موقع پر آبدیدہ بھی ہو گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ زمبابوے، ورلڈ الیون اور ویسٹ انڈیز سے سیریز کے بعد پی ایس ایل میچز میں بھی زبردست سیکیورٹی فراہم کی گئی،شین واٹسن، جنوبی افریقی اور انگلش کرکٹرز کی آمد سے بالآخر خوف کی وہ دیوار گر گئی ہے۔

امپائر احسن رضا نے کہا کہ آسٹریلوی آل راؤنڈر نے  پہلے آنے سے انکار کیا تھا اس بار آئے تو بڑے مطمئن دکھائی دیے، اس کا کریڈٹ سیکیورٹی اداروں کو دینا چاہیے،ہم بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کریں تو اہلکار ہماری حفاظت کے لیے عام گاڑیوں میں ساتھ ہوتے ہیں،ان کی خدمات کو سراہنا چاہیے۔

جسمانی حالت پر تنقید کرنے والوں کومجھ پر جو بیتی اس کا علم نہیں

احسن رضا کا کہنا ہے کہ جسمانی حالت پر تنقید کرنے والوں کو سری لنکن ٹیم پر حملہ میں مجھ پر جو بیتی اس کا علم نہیں، 2009 میں مجھے ایک بڑی اور 2چھوٹی گولیاں لگیں، ڈاکٹر جاوید گردیزی اور شعیب نوید نے پوری کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بحالی میں ڈیڑھ سال لگ جائے گا۔

اس واقعے سے 3 ماہ قبل ہی بینک نے مجھے ملازمت سے فارغ کر دیا تھا، اپنے خاندان کی کفالت کیلیے امپائرنگ بہت ضروری تھی، بعض لوگ میری جسمانی حالت پر تنقید بھی کرتے ہیں، ان کو ظاہری چیزیں نظر آتی ہیں اندرونی حالت کا پتہ نہیں کہ میری باڈی میں کیا مسائل ہیں، ڈاکٹرز نے کن چیزوں سے منع کیا ہے، میں ایکسرسائز نہیں کرسکتا۔ ذہنی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے میدان میں واپس آیا اور ذمہ داریاں سنبھالیں۔ مشکل وقت میں ’’ایکسپریس‘‘ خصوصاً یوسف انجم نے بہت ساتھ دیا۔

دو حصوں میں تقسیم گیند پرکیچ نے دلچسپ صورتحال پیداکردی تھی

دو حصوں میں تقسیم ہونے والی گیند پر متنازع کیچ نے دلچسپ صورتحال پیدا کردی تھی، احسن رضا کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ امپائر میاں اسلم کے ساتھ ایک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں ذمہ داریاں سر انجام دے رہا تھا۔

ایونٹ کرانے والے ادارے کا کہنا تھا کہ گیند ہماری کمپنی کی استعمال ہوگی، وہ اتنی ناقص تھی کہ 9گیندیں تبدیل کرنا پڑگئیں، میچ کا ڈیڑھ اوور باقی اور ہمارے پاس صرف ایک گیند بچی تھی، ایک اسٹروک پر گیند کا لیدر والا خول کیچ ہوگیا جبکہ اندر والا حصہ دور جاگرا، اس واقعے کے بعد دونوں ٹیموں میں بحث چھڑ گئی، گیند کے 2حصوں میں تقسیم ہونے پر ڈیڈ بال کا قانون ہے، میاں اسلم نے صورتحال پر قابو پانے کے بعد اس کو ڈیڈ بال قرار دیا۔

’’توں تے بڑا بہادر ایں‘‘ شیکھر دھون کی پنجابی میں چھیڑ چھاڑ

’’توں تے بڑا بہادر ایں‘‘، شیکھر دھون کی احسن رضا کے ساتھ پنجابی میں چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی۔پاکستانی امپائر کا کہنا ہے کہ ایشیا کپ میں بھارت کے میچ میں امپائرنگ کا تجربہ بڑا خوشگوار رہا، اچھے فیصلے کریں تو میڈیا اور شائقین سب تعریف کرتے ہیں، بھارتی ٹیم کے بنگلہ دیش سے میچ کے دوران جڈیجا کی گیند پر بیک پیڈ والا فیصلہ بڑا مشکل تھا۔

پہلی بار دھونی سے آمنا سامنا ہوا تو انھوں نے کہا کہ سارے امپائر گوروں کی کاپی کرتے ہیں، اچھا لگا کہ تم نے گریز کیا، شیکھر دھون نے پنجابی میں بات کی، 2009 کے واقعے کا پوچھا، اس کے بعد کہا کہ ’’توں تے بڑا بہادر ایں، تسی کسی ٹائم سانوں وی مار دیو گے‘‘، دونوں میچز میں ماحول بڑا خوشگوار رہا۔

سری لنکن ٹیم پر حملے کے متاثرہ آفیشلز ہر سال یاد تازہ کرتے ہیں

سری لنکن ٹیم پر حملے کے متاترہ آفیشلز ہر سال واقعے کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔

احسن رضا نے کہا کہ جب بھی 3مارچ آئے میچ ریفری کرس براڈ،امپائر سائمن ٹوفل، اسٹیو ڈیوس امپائرز کوچ پیٹر مینوئیل سب ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں، یہ سلسلہ گزشتہ10 سال سے جاری ہے۔

امپائر کی اتھارٹی میدان تک ہے باہرجائیں تو کوئی پہچانتا بھی نہیں

احسن رضا کا کہنا ہے کہ امپائر کی اتھارٹی میدان تک ہے باہر جائیں تو کوئی پہچانتا بھی نہیں۔ ویرات کوہلی سمیت دنیا کے بہترین بیٹسمینوں کو ایک انگلی کے اشارے سے باہر بھیجنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ امپائر کے فیصلے پر کوئی بھی ہو اس کو جانا تو پڑتا ہے لیکن یہ اتھارٹی میدان کی حد تک ہے، میچ کے بعد ہوٹل میں واپس جائیں تو کھلاڑیوں کو سب دیکھ رہے ہوتے ہیں، ہمیں کوئی پہچان بھی نہیں رہا ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔