بی آر ٹی پشاور منصوبہ: حماقتوں اور نااہلیوں کا منہ بولتا ثبوت

عماد ظفر  اتوار 31 مارچ 2019
23 مارچ کی تاریخ بھی گزر گئی لیکن پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ 
 منصوبے کا افتتاح نہ ہوپایا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

23 مارچ کی تاریخ بھی گزر گئی لیکن پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کا افتتاح نہ ہوپایا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بالآخر 23 مارچ کی تاریخ بھی گزر گئی لیکن پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے منصوبے کا افتتاح ایک بار پھر نہ ہونے پایا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب تحریک انصاف کی حکومت نے بی آر ٹی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مژدہ سنایا لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا۔ بی آر ٹی پشاور منصوبہ تقریباً 48 ارب روپے کے تخمینے کے ساتھ اکتوبر 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ 27 کلومیٹر لمبا ٹریک ہے اور اس پر تقریباً 220 بسوں نے روزانہ ہزاروں مسافروں کو پشاور شہر میں ان کی منزل مقصود تک پہنچانا ہے۔ لیکن اکتوبر 2017 میں شروع کیا جانے والا منصوبہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ تحریک انصاف جو ہمیشہ سے مسلم لیگ نواز کے انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے منصوبوں بالخصوص میٹرو اور اورنج لائن ٹرین پر تنقید کرتی رہی، اس نے اپنے ووٹ بینک کو خوش کرنے کےلیے یہ منصوبہ شروع کیا تھا، لیکن عجلت میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کا کوئی پیپر ورک اور جامع منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف یہ پشاور کے رہائشیوں کےلیے وبال جان بن چکا ہے تو دوسری جانب قومی خزانے پر بھی اس کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔

اس وقت تک بی آر ٹی پشاور کے منصوبے پر تقریباً 68 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ 150 سے زائد بسیں ابھی پاکستان آنا ہیں اور اس کے 11 کے قریب بس اسٹیشنوں کی تعمیر ابھی باقی ہے۔ ٹکٹ سسٹم سے لے کر آئی ٹی کے معاملات بھی ابھی باقی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ نومبر 2019 سے پہلے مکمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور اس کی لاگت 100 ارب روپے تک پہنچنے کے امکانات موجود ہیں۔ یعنی بی آر ٹی پشاور بس کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد پاکستانی تاریخ کا بسوں کے ذریعے سفر کا سب سے مہنگا منصوبہ بن جائے گا۔ لاہور میٹرو بس کا منصوبہ جس کا ٹریک 27 کلومیٹر پر محیط ہے اسے 29.65 ارب روپے، راولپنڈی۔ اسلام آباد میٹرو بس جس کا ٹریک 22 کلومیٹر لمبا ہے، اسے 44.31 ارب روپے اور ملتان میٹرو بس کے منصوبے کو 29 ارب روپے میں مکمل کیا گیا تھا۔

اس منصوبے کو شروع کرتے وقت تحریک انصاف نے اس منصوبے کے بلیو پرنٹ یعنی تعمیر سے متعلق پلاننگ کے کاغذات اور نقشوں کی تفصیل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی اور نتیجتاً اس منصوبے میں فاش غلطیاں بارہا سامنے آتی رہیں۔ مثال کے طور پر منصوبے پر کام کے دوران ایک انڈر پاس تعمیر کرنے کے بعد انجینئروں کو معلوم ہوا کہ جو انڈر پاس تعمیر کیا گیا ہے اس کی چوڑائی اتنی نہیں ہے کہ اس میں سے ٹریک پر چلنے والی بسیں گزر سکیں۔ چنانچہ اس انڈر پاس کو پھر سے تعمیر کیا گیا۔ حشت نگری اور فردوس سینما کے قریبی علاقے میں بھی منصوبے کا کام کئی بار اس لیے روک کر دوبارہ سے شروع کرنا پڑا کہ کہیں اس کے ٹریک سے سیوریج کے نظام کو مسئلہ آ رہا تھا اور کہیں یہ مختلف چوک اور یو ٹرین بند کرنے کا باعث بن رہا تھا۔ اس قدر سنگین غلطیاں اگر مسلم لیگ نواز سے میٹرو بس کے منصوبوں کی تعمیر کے دوران سرزد ہوئی ہوتیں تو ہمارے میڈیا کے ساتھیوں نے زمین آسمان ایک کردینا تھا، نیب نے انکوائریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دینا تھا اور عدالتوں نے سوموٹو لیتے ہوئے ان پر سماعت کا آغاز کردینا تھا۔ لیکن چونکہ یہ غلطیاں تحریک انصاف سے سرزد ہوئی ہیں، اس لیے اسے سب معاف ہے۔

بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ دراصل تحریک انصاف کی تفضیلات میں نہ جانے، منصوبہ بندی نہ کرنے اور پھر منصوبوں کو تکمیل تک نہ لے جا پانے کی صلاحیتوں کی کمی کا غماز ہے۔ یہ ایک قابل فکر بات ہے، کیونکہ اب تحریک انصاف محض صوبہ خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ مرکز اور پنجاب میں بھی اقتدار پر براجمان ہے۔ پاکستان میں جاری حالیہ معاشی بحران بھی تحریک انصاف کی حکمرانی اور کام کرنے کی صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے درپیش ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے میں بے حد دیر کردی، پھر موصوف آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقاتوں کے دوران بیوروکریسی کی بنائی گئی فائلوں پر ہی گزارا کرتے رہے۔ یہی حال عمران خان کا ہے، جو وعدے اور دعوے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن تفصیلات اور منصوبوں کو قابل عمل بنانے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، اس لیے اب تک اپنا کوئی بھی وعدہ پورا کرنے سے قاصر ہیں اور یوٹرن لینے کو قیادت کے وصف کے طور پر گردانتے ہیں۔

چونکہ تحریک انصاف ہر مسئلے کا دوش نواز شریف یا پھر پیپلز پارٹی پر دھر دیتی ہے، اس لیے باقی منصوبوں اور دعووں پر بات نہ بھی کریں لیکن بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ تو خود تحریک انصاف نے شروع کیا تھا اور اس میں التوا کے باعث قومی خزانے پر جو اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے اس کا دوش بھی تحریک انصاف کے سر ہی ہے۔ عمران خان اور ان کے ہمنوا ہمیشہ سے میٹرو بس کے منصوبوں کو جنگلی بسیں کہتے رہے اور بنا کسی ثبوت کے مسلم لیگ نواز پر ان منصوبوں میں کرپشن کے الزام دھرتے رہے، اب جبکہ بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے اور مسلسل قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے تو ایسے میں کیا تحریک انصاف پر اس کی نااہلی کے باعث قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے معاملے کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے؟

بی آر ٹی منصوبہ کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ہی شاید تحریک انصاف نے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی ہے، کیونکہ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مصداق جب ترقیاتی کاموں کےلیے بجٹ ہی نہیں بچے گا تو تحریک انصاف کو ایسے منصوبے بنانے ہی نہیں پڑیں گے۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ اب وفاق میں حکومت آنے کے بعد تحریک انصاف کے بی آر ٹی جیسے کئی منصوبوں مثلاً پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے منصوبوں کے بھی پول کھلتے جائیں گے۔ بی آر ٹی پشاور کے معاملے کی کسی غیر جانبدارانہ ادارے سے تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان تمام افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا چاہیے جو اس منصوبے کی ناقص حکمت عملی تیار کرنے اور اس کی تعمیر میں نقائص کے ذمے دار ہیں۔ حکمرانی کوئی آن جاب ٹریننگ نہیں ہوتی کہ جس میں آپ غلطیوں پر غلطیاں کرتے جائیں تو بھی خیر ہے۔ یہاں قومی خزانے سے پیسوں کا زیاں ہورہا ہے، جس کا تدارک بے حد ضروری ہے۔

بی آر ٹی کا منصوبہ تکمیل تک پہنچانے کےلیے محض دشنام طرازیوں اور مخالفین پر تہمتیں دھرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ منصوبہ رفتہ رفتہ تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے اور اس کی تعمیر میں حماقت در حماقت نے تحریک انصاف کے عملی محاذ پر کھوکھلے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عماد ظفر

عماد ظفر

بلاگر گزشتہ کئی سال سے ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، ٹیلیویژن اور این جی اوز کے ساتھ وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سےاردو اور انگریزی بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔