عورتوں کا عالمی مہینہ…

شیریں حیدر  اتوار 31 مارچ 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

پہلے تو کبھی علم ہی نہ ہوتا تھا کہ عورتوں کے عالمی دن کے نام کی کوئی بلا بھی ہوتی ہے۔ چند برس سے سوشل میڈیا نے دنیا بھرکو ایک گاؤں کی مانند بنا دیا ہے اور جہاں بھی جو کچھ ہوتا ہے وہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں زبان زد عام ہو جاتا ہے ۔ چند عشروں پہلے تک صرف اخبار ہی میڈیا ہوتا تھا، اس کے بعد ریڈیوآیا، جو ہر کہیں اور ہر کسی کے پاس نہ ہوتا تھا۔

ٹیلی وژن ایک انقلابی ایجاد کے طور پر ہمارے ہاں آیا اور پھر ہر گزرتے پل کے ساتھ ٹیکنالوجی نے تیزی سے ترقی کی اور ٹیلی فون، کمپیوٹر اور اب اسمارٹ فون کی آمد نے زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ اب ہم دنیا کو اپنی ہتھیلیوں پر اور اپنی جیبوں میں لیے پھرتے ہیں، لمحوں میں ہزاروں میل کے فاصلے ختم ہو جاتے ہیں ۔ یہ ساری ترقی جہاں زندگیوںمیں آسانی لائی ہے وہیں اس نے اپنے ساتھ مشکلات کا ایک انبار ہمارے اوپر لاد دیا ہے۔ اپنے بچوں کو کچھ بھی بتانے یا سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ حوالہ مانگتے ہیں، اس سے پہلے کہ ہم بات مکمل کریں وہ Google سے پوچھ کر ہمیں بتادیتے ہیں کہ ہم غلط ہیں اور وہ ہر چیز کے بارے میں جاننے کے لیے Google سے پوچھ سکتے ہیں۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی عورتوں کے عالمی دن کی، اسے دنیا میںمنایا جاتا تھا اور ہمارے ہاں چند برس تک تو اس کی مذمت ہوتی رہی کہ یہ سب لغویات ہیں ۔ سال کے سارے دن عورتوں کے ہوتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ۔ آہستہ آہستہ ہمیں اچھا لگنے لگا کہ ایک دن عورتوں کو ’’ ذرا زیادہ‘‘ اہمیت دے دی جائے اور یوں ہم نے ماضی میں بدعت کہے جانے والے اس مخصوص عالمی دن کو جو کہ آٹھ مارچ کو منایا جاتا ہے، اپنی معاشرت کا حصہ بنا لیا اور اس سے منسلک مبارک بادیں اور تحفے تحائف کے سلسلے چل نکلے۔

اس برس مارچ کے شروع ہوتے ہی اس دن کے بارے میں مختلف باتیں سننے کو ملنا شروع ہو گئیں۔ آٹھ مارچ سے لے کر مہینہ ختم ہونے کو آ گیا ہے مگر عورتوں کے ایک دن کے پیغامات مہینے بھر سے گردش میں ہیں۔ اس کا اہم سبب پہلی بار کیا جانے والا ’’ عورت مارچ ‘‘ ہے۔ پہلی بار عورتیں ( شاید عورتیں) اپنے عالمی دن پر اپنے گھروں سے نکلیں اور ایک منظم مارچ کیا… اس مارچ میں موجود عورتوں کے عورت ہونے پر ہی سب سے پہلے مختلف حلقوں سے تشکیک کے پیغامات سوشل میڈیا پر گردش میں رہے اور پورا مہینہ فضول قسم کے شوشے چھوڑے جاتے رہے۔ اس مارچ میں عورتوں نے جو بینر اٹھا رکھے تھے ان سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ یہ عورت مارچ نہیں بلکہ ’’ بیوی مارچ ‘‘ تھا۔جن کاموں کے کرنے سے عورتیں انکاری بینر اٹھا کر مارچ کرتی نظر آئیں، وہ سب وہ کام ہیں جو ایک بیوی اپنے شوہر کے لیے کرتی ہے۔

کوئی ایسا بینر نظر نہیں آیا کہ جس میں عورت اپنے باپ، بھائی، بیٹے، باس یا ماتحت سے کوئی مطالبہ کر رہی ہو۔ عزت بھی صرف شوہر سے کروانا چاہتی ہے، کسی اور سے نہیں۔ وہ باپ اور بھائیوں کے کام کر کے نہیں تھکتی، بسوں پر دھکے کھاتے ہوئے بھی اسے کوئی مسئلہ نہیں۔ کوئی اسے ونی یا سوارہ کردے، جائیداد کی خاطر اس کی شادی تک نہ ہونے دے یا اسے زندہ درگور کر دے، اسے تعلیم نہ حاصل کرنے دے، گھر سے باہر قدم نکالنے پر بھائی اس کی ٹانگیں توڑ دے، ماں گھر کا اتنا کام کروائے اور بدلے میں تشکر کا ایک لفظ نہ بولے، کہیں رشتے پر انکار کردے تو اس پر تیزاب پھینک دینے والا بھی درست، کام کرتی ہوئی ہر مرد کی گندی نظروں کا نشانہ بننا بھی گوارا ( مگر شوہر کے حقوق ادا کرنا بھی گوارا نہیں) ۔

میں بھی پورا مہینہ آپ سب کی طرح ایسے فارورڈ پیغامات کو پڑھ پڑھ کر سر دھنتی رہی کہ ہماری عورت تو مغرب کی عورت سے زیادہ ترقی کر گئی ہے، وہ گھر کی چار دیواری میں جس تحفظ اور عزت سے رہتی ہے وہی اسے قید اور اپنے بچوں کو پالنا اسے زنجیر لگنا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے اس سارے سلسلے میں سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے ہاں کی عورت کا مطالبہ کیا ہے؟ یہ سارا مارچ کا چکر کس کا تخلیق کردہ تھا اور اس سے انھیں حاصل کیا ہوا ہے؟ اپنی ان بچیوں کو جنہوں نے ابھی شادی کرنا ہے انھیں کیا سکھانے کی کوشش کی گئی ہے؟

کاش اس مارچ کا انتظام کرنے والے عورت کو عورت سمجھتے اور اسے فقط ایک بیوی کے روپ میں یوں بدنام زمانہ نہ کرتے۔ ایک عورت کی حیثیت سے وہ کتنے رشتوں کی زنجیر سے منسلک ہوتی ہے اور یہ سب رشتے خونی ہونے کے ساتھ ساتھ پیار اور محبت کے رشتے ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عورت اپنے مطالبات کو اس طرح ترتیب دیتی۔

… میری پیدائش سے پہلے الٹرا ساؤنڈ کروا کر مجھے پیدا ہونے سے پہلے اس لیے مت مار دو کہ میں لڑکی ہوں۔… میری پیدائش پر شرمندہ نہ ہوں، پریشان نہ ہوں، میری پرورش کر نے پر آپ سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ … مجھے بھی ویسی ہی خوراک دیں جیسی اپنے بیٹے کو دیتے ہیں، میری جسمانی پرداخت کے لیے بھی وہی ضروریات ہیں جیسی میرے بھائی کی ہیں ۔ اگر میرا کوئی بھائی نہیں ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے اس لیے مجھے منحوس نہ کہیں ۔… میرا بھی کھیل اور تعلیم پر اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کے بیٹوں کا ہے، مجھے بھی معاشرے کا ایک فعال رکن بننے دیں۔ مجھے کم از کم اتنا ضرور پڑھائیں کہ میں مشکل حالات میں اپنا اور اپنے خاندان کا بوجھ اٹھا سکوں ۔ … مجھ پر جسمانی تشدد نہ کریں بلکہ پیار سے سمجھائیں ۔… تعلیم کے میدان میں میری کارکردگی کو سراہیں اور میری کمزوریوں پر مجھے ملامت نہ کریں ۔… جائیداد میں میرا جو شرعی حصہ ہے وہ مجھے ضرور دیں کہ آپ نے روز جزا اللہ کو منہ دکھانا ہے۔ … شادی کرتے وقت میری رضا کو اہمیت ضرور دیں ۔ بے جوڑ رشتوں سے نبھانے پر مجبور بھی نہ کریں ۔…

اگر میں رشتے سے انکار کر دوں تو مجھ پر تیزاب پھینک کر میرا وجود مت ختم کردو۔ … اگر میں نے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے تو مجھے ملازمت کرنے دیں ورنہ ایک اہم سیٹ ضایع ہو جاتی ہے۔ … مجھے ونی یا سوارہ نہ کریں اور نہ ہی مجھے عمر بھر کے لیے اس لیے اپنے گھر میں بٹھا کر رکھیں کہ آپ کی جائیداد باہر نہ چلی جائے۔… میری صحت کا بھی خیال رکھیں اور بیمار پڑنے پر میرا علاج کروائیں ۔ … شوہر کی حیثیت سے آپ میری عزت کریں اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری سرزنش تنہائی میں کریں نہ کہ مجھے اپنے گھر والوں کے سامنے بے وقعت کر دیں ۔ میں بھی آپ کی عزت کرنے کی پابند ہوں مگر آپ پر بھی لازم ہے کہ آپ مجھے عزت دیں ۔… بھائی ہونے کی حیثیت سے میرا مان بنیں اور مجھ پر خواہ مخواہ شک نہ کریں اور نہ ہی مجھے خود سے کمتر جانیں ۔… بیٹے ہو تو بیٹا بن کر رہو… میرا آقا نہ بنو۔ مجھ سے احترام سے اور دھیمے لہجے میں بات کرو اور میرے حقوق کا خیال رکھو۔… میرے باس ہو تو مجھے مال غنیمت نہ سمجھو۔ میں اپنی صلاحیتوں کی بنا پرجس مقام پر پہنچی ہوں اسے میری بے عزتی کر کے حقیر نہ کرو۔ مجھے جنسی طور پر ہراساں نہ کرو۔ میرے لیے بھی وہی تنخواہ مقرر کرو جو میری صلاحیت کے برابر مردوں کی ہوتی ہے۔ … اگر میں تمہارے گھر کی ملازمہ ہوں تو مجھے مفت کا مال نہ سمجھو اور نہ ہی میری عزت پر نظر رکھو۔

غرض عورت کے ہر رشتے کے ساتھ اگر مطالبات کی فہرست بنائی جائے تو ایک کالم اس کے لیے بہت کم ہے۔ سارا دکھ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی عورت نے نہ اپنے مقام کو پہچانا ہے اور نہ اسے علم ہے کہ اسے کس مرد سے کیا چاہیے۔ وہ صرف شوہر کو مرد کیوں سمجھتی ہے اور باقی رشتوں کو فرشتے؟ خدارا اس طرح کی ساری حرکتیں بند کریں کہ یہ دنیا بھر میںپھیل جاتی ہیں اور ہمارے ہاں کی عورت کا ایک منفی تاثر قائم کرتی ہیں ۔ مغرب کی عورت تو اس ایک دن اس بات پر بھی خوش ہو جاتی ہے کہ اس روز ناشتے میں کافی اس کی بجائے اس کے شوہر نے بنائی یا اس کے بیٹے نے اسے چاکلیٹ تحفے میں دی، باپ نے اسے بتایا کہ اسے اپنی بیٹی سے کتنا پیار ہے، داماد نے اپنی ساس اور بیوی کو کھانے پر باہر لے جانے کا پروگرام بنا لیا۔

آپ بھی عورتوں کے عالمی دن کو منانا چاہتے ہیں تو اتنا کافی ہے۔ ہر چیز کسی حد میں ہوتو اچھی لگتی ہے۔ پورے مہینے کو اپنے لیے مذاق کا مہینہ نہ بنا لیں اور جیسے کہ ہم پہلے کہتے تھے کہ سارے دن ہی عورتوں کے دن ہوتے ہیں، اس تھیوری کو اپنے لیے کافی سمجھیں۔ اللہ ہم سب کو راہ ہدایت پر رکھے ۔ آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔