سوشل میڈیا

سعد اللہ جان برق  اتوار 31 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ’’ہرن‘‘ پہلے دوڑنے میں کیا کم تھا کہ کسی نے پیروں میں گھنگرو بھی باندھ دیئے۔ حالانکہ اس نے کبھی نہیں کہا تھا کہ میرے پیروں میں گھنگرو بندھا دے تو پھر میری ’’ٹور‘‘ دیکھنا۔ چنانچہ یہ سوشل میڈیا جو ہے یہ پہلے بھی کچھ کم ’’میڈ‘‘ نہیں تھا یا تھی؟۔ تھا یا ’’تھی‘‘ کا معاملہ کچھ ویسا ہی ہے جیسا کہ عوام کے سلسلے میں ہے، عوام تھے یا تھی۔

پتہ نہیں چلتا، خیر عوام کا کیا ہے اگر ’’تھی‘‘ یا تھا کچھ اور بھی کہا جائے تو بچارے یا بچاری آرام سے سن لیتی ہے لیکن سوشل میڈیا۔ تو میڈیا بھی ہے اور میڈ بھی۔کیا پتہ کس وقت کیا کر بیٹھے لیکن تذکیر و تانیث کا وہ فارمولہ بھی غلط نہیں ہے کہ ’’دانہ‘‘ ڈال دو اگر چگھنے لگی تو مونث اور چگھنے لگا تو مذکر؟۔ لیکن اس سے بھی بہتر فارمولہ باچا خان کا ہے۔ ہندوستان میں کسی جگہ وہ جب تسلسل سے میرا قوم میرا قوم کہنے لگے تھے تو کسی نے بتایا کہ قوم مونث ہے، جواب میں انھوں نے کہا کہ آپ کی قوم مونث ہوتی ہے، ہمارا تو مذکر ہے۔

ویسے بھی پشتونوں کا مزاج مذکر پسند ہوتا ہے، اس لیے اگر ہم میڈیا کی تذکیر وتانیث میں گڑ بڑ کر دیں تو معاف کر دیجیے۔ درمیان میں خواہ مخواہ یہ تذکیر و تانیث کا پھڈا آ کودا۔ ہم اس میڈیا کی بات نہیں کر رہے ہیں جو پہلے بھی ’’ٹی آر پی‘‘ کی دوڑ میں  تھا لیکن اب اوپر سے یہ جو ’’سوشل میڈیا‘‘ کا ’’شتر بے مہار‘‘ اس کے ’’خیمے‘‘ میں گھس آیا ہے تو بنتی نہیں ہے ’’میڈ‘‘ و پاگل کہے بغیر۔

عرب کے اونٹ کا قصہ تو یقیناً آپ نے سنا ہو گا کہ اس نے سخت سردی میں ترس کھا کر اسے اپنے خیمے میں صرف ’’سر‘‘ گھسانے کی اجازت دی تھی لیکن رات کو اس نے خود کو باہر اور اونٹ کو اندر پایا۔ اب ظاہر ہے کہ اونٹ جس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوتی جب خیمے میں گھستا ہے تو خیمہ کا حال بھی وہی ہو گا۔ جو مجنوں کے گربیان اور انشا جی کی سو چھیدوں والی ’’جھولی‘‘ کا ہوا تھا۔

اس حقیقت کو تو ہم قبول کر چکے تھے کہ الیکٹرانک میڈیا اور پھر اس میں ٹی آر پی کے اونٹ نے اس کا کباڑہ کر دیا ہے اور صحافت جو پہلے ایک فن ایک ہنر اور ایک تلقین شاہ تھی، اس کا کوئی ضابطہ اور اصول بھی ہوتا تھا، اور عوام کی طرف سے کچھ ذمے داری کا احساس بھی رکھتی تھی۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح کمرشلائز اور انڈسٹرئیلاز ہو چکی ہے۔ اب زمام داروں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ان کی ’’اسٹوری‘‘ اور بریکنگ نیوز سے کیا ہوتا ہے ۔ ان کو تو سنسنی خیز، تہلکہ خیز اور طوفان خیز اسٹوری چاہیئے ہوتی ہے کہ اس سے ٹی آر پی بڑھتی ہے۔ بچارا صحافی اور رپورٹر اور کیمرہ مین بھی مجبور ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز اسٹوری لائے۔

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

چور ہیرو بنتے ہیں تو بنیں ۔ لیکن بریکنگ نیوز ہاتھ لگے اور ٹی آر پی بڑھے۔

مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو

یک گونہ ٹی آر پی مجھے دن رات چاہیے

لیکن اب جو یہ میڈ سوشل میڈیا کا ظہور ہوا ہے اور ہمارا مشورہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ ’’میڈ‘‘ بلکہ میڈ میڈ کا سابقہ ضرور لگادینا چاہیئے جیسا کہ اکثر صفات پر زور دینے کے لیے دہرایا جاتاہے۔ مثلاً جب ایک مرتبہ’’خان‘‘ سے کھجلی نہیں مٹتی تو آگے پیچھے دو ’’خان‘‘ لگا دیتے ہیں جیسا کہ کوئٹہ جانے والی گاڑی کو ایک انجن آگے اور دوسرا پیچھے لگایا جاتا۔ خان عبدالقیوم خان، خان معظم خان، خان مسکین خان، خان غریب اللہ خان۔ یا عبدالرحیم خان خاناں بقول داغ دہلوی

رفتہ رفتی وہ میری ’’بستی‘‘ کے مہمان ہو گئے

پہلے ’’خان‘‘ پھر ’’خان خاں‘‘ پھر خان خاناں ہو گئے

دن بدن بڑھتی رہیں اس حسن کی رعنایاں

پہلے گل پھر گل بدن پھر گل بداماں ہو گئے

بات ادھر پھیلتی ہے اور اس لیے پھیلتی ہے کہ انتہائی پھسلواں میڈ میڈ سوشل میڈیا کی بات ہے جو کچالو سے زیادہ پھسلواں، بینگن سے زیادہ ’’دل بدلو‘‘ اور پانی سے زیادہ ہر رنگا ہے۔ ہم اکثر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور شاید ہم پہلے بندے ہیں جو کسی ’’محرومی‘‘ پر شکر گزار ہیں کہ ہم اس میڈمیڈ میڈیا المعروف بہ سوشل میڈیا سے محروم ہیں کیونکہ یہاں وہاں جب اس کے بارے میں سنتے ہیں تو ایک جھرجھری سی آ جاتی ہے کہ کیا ایسا حشر نشر بھی ہو سکتا ہے۔

اصل المیہ یہ بھی نہیں ایک زمانے میں ’’گالیاں دینا‘‘ جاہل اجڈ اور گنوار لوگوں کا کام سمجھا جاتا تھا اور شرفا گالی دینے کو انتہائی ذلیل کام سمجھتے تھے۔ لیکن اب جو پڑھے لکھے ترقی یافتہ اور سوشل لوگ جو گالیاں دیتے ہیں ان کو سن کر جاہل گنوار اور اجڈ لوگ بھی توبہ توبہ کرتے ہوئے جنگل کو بھاگ اٹھیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہر ایجاد ایک نعمت ہوتی ہے لیکن نعمت کو نعمت سمجھنے والے بھی تو ہونے چاہیں۔ بارش اپنی ذات میں کتنی پاک و پاکیزہ چیز ہے۔ برستی ہے تو سب کچھ نکھر جاتا ہے باغ و بہار سبزہ وگل اور خوبصورت ہو جاتے ہیں لیکن یہی بارش جب گندگی کے ڈھیر پر پڑتی ہے تو اور بھی کئی گنا غلیظ ہو جاتی ہے۔

وہ قصہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ ایک شخص نے ایک نادر تدبیر سے نہایت ہی ناپسندیدہ کام کیا فارغ ہونے پر اپنے کرتوت کو سوچا تو بولا، ارے شیطان تیرا منہ کالا ہو، یہ تم نے کیا کرا دیا مجھ سے۔ اس پر شیطان بہ نفس نفیس حاضر ہو کر بول، مجھے کیوں ناحق بدنام کر رہے ہو، یہ کام جو تم نے کیا ہے اور جس طریقے سے کیا ہے وہ طریقہ تو میرے باپ کو بھی معلوم نہ تھا۔ ہم نے یہ رونا اس لیے نہیں رویا ہے کہ ہمیں اس اسفلہ سافلین میں گرے ہوئے انسان کے سدھرنے کی امید ہے جو کام رب عظیم کے اتنے مقرب بندے اور اتنی کتابیں نہ کر پائیں وہ ہمارے کہنے سے کیا پائے گا بلکہ ہمیں ڈر ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔