پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ون ڈے سیریز؛ ورلڈکپ سے قبل ناکام تجربات نے اعتماد متزلزل کر دیا

میاں اصغر سلیمی  اتوار 31 مارچ 2019
باگ ڈور ایسے کھلاڑی کو سونپ دی گئی جو ذاتی کارکردگی میں بھی مسلسل ناکام چلا آرہا ہے۔ فوٹو: فائل

باگ ڈور ایسے کھلاڑی کو سونپ دی گئی جو ذاتی کارکردگی میں بھی مسلسل ناکام چلا آرہا ہے۔ فوٹو: فائل

’’آ بیل مجھے مار‘‘ کا محاورہ شاید پاکستان کرکٹ بورڈ کے لئے ہی بنا ہے، اگر ماضی کے اوراق میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ کرکٹ بورڈاور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جب بورڈ میں سب اچھا ہو رہا ہے۔

قومی ٹیم کی انٹرنیشنل سطح پر پرفارمنس شاندار جا رہی ہو، نئے کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بن کر اپنی صلاحیتوں کا بھر پور انداز میں مظاہرہ بھی کر رہے ہوں، پھر نہ جانے کیوں پی سی بی حکام کی طرف سے اچانک کچھ ا یسی حکمت عملی اپنا ئی جاتی ہے کہ سب کچھ الٹ ہو جاتا ہے، ہیرو زیرو بن جاتے ہیں اور گرین شرٹس کی کارکردگی بلندیوں سے پستیوں کا سفر شروع کر دیتی ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی موجودہ صورتحال کا ہی بغور جائزہ لے لیں۔

ورلڈکپ کی آمد آمد ہے، دنیا بھر کی ٹیمیں عالمی ٹائٹل اپنے نام کرنے کیلئے تیاریوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں تاہم ہمارے ہاں الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے، پاکستانی ٹیم کے ساتھ نت نئے نئے تجربات کئے جا رہے ہیں، عرصہ دراز سے اپنی کارکردگی سے دنیا بھر میں دھاک بٹھانے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد سمیت 6 کھلاڑیوں فخر زمان، شاداب خان، حسن علی، شاہد آفریدی اور بابراعظم کو آرام کے نام پر قومی ٹیم سے باہر بٹھا دیا گیا اور باگ ڈور ایسے کھلاڑی کو سونپ دی گئی جو ذاتی کارکردگی میں بھی مسلسل ناکام چلا آرہا ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز ناکامیوں کے بعد پی سی بی حکام کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ شعیب ملک میں اب ماضی والا دم خم نہیں رہا، اگر وہ واقعی بڑے کپتان تھے تو پاکستان سپر لیگ کی سب سے مہنگی ٹیم ملتان سلطانز کو ٹائٹل جتوا دیتے لیکن یہ ٹیم تو پہلے ہی مرحلے میں پی ایس ایل سے باہر ہو گئی، اس کارکردگی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شعیب ملک بطور کپتان کس قدر اور کتنی مہارت رکھتے ہیں۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو شعیب ملک اور سرفراز احمد کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہی وجہ ہے کہ دو سال ٹی ٹوئنٹی میں ناقابلِ شکست رہنے والی ٹیم سرفراز احمد کی غیر موجودگی میں جنوبی افریقہ میں ناکام ہوئی، آسٹریلیا کے خلاف بھی ناکامیوں کا سلسلہ برقرار رہا۔

اگر متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز کی بات کی جائے تو کینگروز ابتدائی تمام 4 میچز میں کامیابی کے ساتھ سیریز بھی اپنے نام کر چکے ہیں،اگر پہلے 3 میچز میں گرین شرٹس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کپتان شعیب ملک، امام الحق، عمر اکمل، شان مسعود اور دیگر اہم کھلاڑی اتنے رنز نہیں بنا سکے جتنے اکیلے ایرون فنچ نے بنائے۔

قومی ٹیم کی یکے بعد دیگرے ناکامیوں کے بعد بظاہر اندازہ ہوتا ہے کہ شعیب ملک نے اپنی بیٹنگ لائن پر زیادہ اعتماد نہیں کیا یا پھر اپنی بولنگ لائن پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کر بیٹھے کیونکہ جس طرح سے ایرون فنچ اور شان مارش نے بیٹنگ کی، پاکستانی بیٹسمین اس آزادی سے کھیلتے نظر نہیں آئے، اسی طرح یاسر شاہ اور عماد وسیم بھی ویسی بولنگ نہیں کر سکے جیسی ایڈم زمپا اور ناتھن لیون نے کی۔

پہلا پاور پلے ہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں ٹیمیں اپنی اننگز کا رخ متعین کرتی ہیں، پاکستان ان مقابلوں کے دوران پاور پلے میں توقعات کے مطابق کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔ بیٹنگ کے دوران شان مسعود کی سست روی آڑے آ گئی اور بولنگ کے دوران محمد عامر اور محمدعباس بھی ویسی ’کاٹ‘ نہ دکھا پائے جو سیریز میں ضروری تھی۔بہت عرصے بعد ایسا ہوا کہ درمیانی اوورز میں پاکستان کو شاداب خان کی خدمات میسر نہ تھیں۔ ان کی عدم موجودگی میں جو امیدیں ٹیسٹ سپیشلسٹ یاسر شاہ سے وابستہ کی گئی تھیں، وہ بار آور ثابت نہ ہوئیں۔

رہی بات شعیب ملک کی کپتانی کی تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اب آتش جوان نہیں رہا۔ ایسے حالات میں کہ جب ایرون فنچ اور شان مارش جیسے دو بیٹسمین جم جائیں، وہاں بولنگ سائیڈ کے کپتان کو کچھ ’’تخلیقی‘‘ سوچ دکھانا پڑتی ہے، کسی پارٹ ٹائم آپشن کو استعمال کیا جاتا ہے مگر شعیب ملک اس دوران کھوئے کھوئے سے دکھائی دیے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کی کارکردگی اوسط درجے کی رہی۔

شعیب ملک کے ان فٹ ہونے کے بعد چوتھے میچ میں کپتانی کا بوجھ عماد وسیم کے کندھوں پر ڈالا گیا لیکن ان کی قیادت میں بھی پاکستانی ٹیم ناکامیوں کا رخ نہ موڑ سکی اور گرین شرٹس جیتا ہوا میچ ہار گئے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ دو بیٹسمینوں کے سنچری سکور کرنے کے باوجود پاکستانی ٹیم میچ کیسے ہار گئی۔ میچ کے دوران تھوڑی سی بھی عقل مندی کا مظاہرہ کیا جاتا تو قومی ٹیم بآسانی یہ مقابلہ جیت سکتی تھی لیکن کپتان عماد وسیم اور بیٹسمینوں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے پاکستانی ٹیم میچ کا نتیجہ اپنے حق میں نہیں کر سکی۔

قومی ٹیم کے پے در پے ناکامیوں کے بعد اس وقت ٹیم کے ڈریسنگ روم کی صورتحال کچھ اس طرح کی ہے کہ ہر کوئی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہے، ہر کوئی اپنی حیثیت کا جواز دینے کی کوشش کر رہا ہے،اس لیے کوئی بھی پریشان نہیں ہے مگر سبھی درونِ خانہ بہت پریشان ہیں کیونکہ اس وقت سوال ایک میچ یا ایک سیریز کا نہیں ہے، سوال کہیں بڑا ہے۔سوال یہ ہے کہ ورلڈکپ کی ٹیم میں کون کون ہو گا؟

پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کی حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کمیٹی چیف سلیکٹر انضمام الحق کے گرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہے، توصیف احمد سمیت دوسرے سلیکٹرز میں اتنی اخلاقی جرأت ہی نہیں کہ وہ میٹنگز کے دوران چیف سلیکٹر کے سامنے اپنی کوئی رائے دے سکیں۔ جہاں تک انضمام الحق کی اپنی ذات کی بات ہے تو انہیں امام الحق کے علاوہ کوئی اور باصلاحیت کھلاڑی ہی نظر نہیں آتا، اگر آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دوران امام الحق کی مجموعی کارکردگی واجبی سی رہی۔

امام الحق اگر بیمار نہ ہوتے تو عابد علی کبھی بھی قومی ٹیم کا حصہ نہ بن پاتے اور وہ اپنے پہلے ہی ایک روزہ میچ میں سنچری بنانے والے تیسرے پاکستانی ہونے کا اعزاز اپنے نام نہیں کرپاتے، عابدعلی اور رضوان علی کی کارکردگی کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی کرکٹ میں نہ جانے کتنے گوہر نایاب ہیں جو مٹی میں ہی گم ہوچکے، پہلے ہی اوور میں وکٹ گرنے کے بعد عابد علی کے اعتماد اور اننگز آگے بڑھانے کیلئے موزوں تکنیک نے سب کو متاثر کیا، مبصرین بار بار سوال اٹھاتے رہے کہ اگر سیریز آزمائشی تھی تو عابد علی کو گزشتہ تینوں میچز میں موقع کیوں نہیں دیا گیا۔

نجم سیٹھی کی رخصتی کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق صدر احسان مانی کے چیئرمین پی سی بی بننے پر امید ظاہر کی جارہی تھی کہ پاکستان کرکٹ میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئے گی،قومی ٹیم فتح وکامرانی کا نیا سفر شروع کرے گی، ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی ایسے اقدامات ہوں گے کہ نئے ٹیلنٹ کی کمی نہیں رہے گی لیکن انہوں نے شائقین کرکٹ کو اب تک خاصا مایوس کیا ہے، غیر پیشہ ورانہ سوچ کے ساتھ نہ صرف قومی ٹیم کے ساتھ بلاوجہ چھیڑچھاڑ کی گئی ہے بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ کو بھی ایک نئے تجربے کی نذر کیا جا رہا ہے۔

نہیں معلوم کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ذہن میں کس نے یہ بات بٹھا دی ہے کہ آسٹریلوی طرز کا ڈومیسٹک ڈھانچہ اپنا کر پاکستانی کرکٹ بھی بہت ترقی کرے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے سیاسی، معاشی اور دوسرے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

آسٹریلوی کرکٹرز کے برعکس ہمارے کھلاڑیوں کی اکثریت کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے، کسی کرکٹر کو پی آئی اے، سوئی گیس سمیت کسی سرکاری اور نیم سرکاری محکمے میں ملازمت ملتی ہے تو اس کی بازگشت آس پاس کے علاقوں میں بھی سنائی دیتی ہے جس کی وجہ سے دیگر نوجوانوں میں بھی کرکٹ کا شوق پیدا ہوتا ہے، جب نئے ڈومیسٹک کرکٹ میں باصلاحیت کھلاڑیوں کی سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں ملازمتوں پرسوالیہ نشان ہو گا تو نوجوان کیونکر اس کھیل کی طرف آئیں گے، افسوس صد افسوس اعلی حکام کو خوش کرنے اور اپنی نوکریاں پکی کرنے کے لئے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کرکٹرز کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کئے جانے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔

کبھی کسی نے غور کیا کہ اسی گلے سڑے سسٹم میں ہی رہ کرہی فضل محمود، حنیف محمد، وسیم باری، جاویدمیانداد، وسیم اکرم، وقار یونس، یونس خان، شاہد آفریدی، عبدالقادر، محمد یوسف اور شعیب اختر سمیت بے شمارباصلاحیت کھلاڑی قومی ٹیموں کا حصہ بنے اور دنیا بھر میں اپنی غیر معمولی کارکردگی کی دھاک بٹھا دی۔ پی سی بی کی طرف سے ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اسی طرح کے نت نئے تجربات کا سلسلہ جاری رہا تو تو قومی ٹیم کی ناکامیوں کے سفر کو کوئی نہیں روک سکے گا۔

ابھی تک احسان مانی کی جانب سے جو نیا ٹیلنٹ سامنے لایا گیا ہے،اس میں بھاری تنخواہ پر انگلینڈ سے درآمد کئے جانے والے منیجنگ ڈائریکٹر وسیم خان، میڈیا ڈیپارٹمنٹ کو سدھارنے کیلئے متعارف کروائے گئے سمیع الحسن برنی شامل ہیں،وراثت میں ملنے والے چیف سلیکٹر انضمام الحق اور ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکت ہارون رشید کی خدمات بھی انہیں میسر ہیں، ان افراد کی تنخواہوں اور مراعات کو دیکھا جائے جائے تو اسی سرمائے سے 150کے قریب کرکٹرز کو ماہانہ 50ہزار روپے دیئے جاسکتے ہیں، کھلاڑی میرٹ پر منتخب اور معاشی فکروں سے آزاد ہوں تو ٹیلنٹ میں کمی کا رونا کم کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔