اور بھٹو مرگیا

آمرانہ ادوار کے جبر بھی بھٹو کو نہ ختم کرسکے اور پھانسی کے بعد بھی لوگ ’’زندہ ہے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتے رہے


محمد احمد April 04, 2019
ذوالفقار علی بھٹو ایک نظریہ کا نام تھا، جسے پھانسی نہ مار سکی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ذوالفقار علی بھٹو تیسری دنیا کے کمزور طبقات کی ایک طاقت ورآواز تھے۔ جسے عدالتی ناانصافی کے عوض موت ملی تو سہی، مگر مار نہ سکی۔

شب ایشیا کے اندھیرے میں سرِ راہ جس کی تھی روشنی
وہ گوہر کسی نے چھپا لیا، وہ دیا کسی نے بجھا دیا

آج مورخہ چار اپریل ہے۔ آج سے ٹھیک چالیس سال قبل اسی تاریخ کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ یہ تحریر ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ مشرقی تہذیب کے برعکس اس تحریر میں بھٹو کی شخصیت کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ مشرقی روایت ہے کہ انتقال کرنے والے کی شخصیت کے صرف مثبت پہلو ہی اجاگر کیے جاتے ہیں۔ لیکن جب ایک بڑے عوامی رہنما کی بات تاریخی حوالوں سے کی جائے گی تو ممکن نہیں کہ مثبت پہلو تو زِیر بحث لائے جائیں اور منفی پہلو یکسر فراموش کردیے جائیں۔

بھٹو کی سیاسی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور پی پی پی کے قیام سے قبل فوجی حکمرانوں کی فرمانبرداری کا ہے۔ دوسرا دور فوجی حکمرانوں سے بغاوت کے بعد پی پی پی کے قیام اور اقتدار کے حصول کی جہدوجہد کا ہے۔ تیسرا دور اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو کے کارناموں اور غلطیوں کا ہے۔ چوتھا اور آخری دور اقتدار سے جبری فراغت کے بعد زندگی کے آخری ایام دردمندی میں گزانے کا ہے۔ اس تحریر میں ایک طائرانہ نگاہ بھٹو کے چاروں سیاسی ادوار پر ڈالی گئی ہے۔

بھٹو نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز میجر جنرل اسکندر مرزا کی کابینہ میں ایک وزیر کی حثیت سے کیا۔ اسکندر مرزا کی برطرفی کے بعد جب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بھٹو اسکندر مرزا کی کابینہ کے شاید واحد وزیر تھے جنہیں جنرل ایوب خان نے بھی بطور وزیر اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ بھٹو نے ایوب خان کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کی صدارتی مہم بھی چلائی۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جن جن لوگوں نے ایوب خان کی خوشنودی کے لیے مہم چلائی ان میں بھٹو کے علاوہ کئی پردہ نشینوں کے نام ہیں۔ نہ صرف فاطمہ جناح بلکہ چند لوگوں نے بانی پاکستان محمدعلی جناحؒ کو بھی نہیں بخشا اور ان کے متعلق بھی انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی۔ صد حیف! ان تمام لوگوں کی اولاد آج بھی اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں پہنچ کر جمہوری اقدار کا درس دیتی ہیں، اور وہ بھی صبح و شام۔ ان جیسے احسان فراموش لوگوں کے لیے ہی حضرتِ جون ایلیا نے کہا تھا۔

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

ایوب خان کے مارشل لاء دور میں بھٹو کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد آخرکار 1963 میں وزیر خارجہ کے عہدے پر براجمان ہو گئے اور بحیثیت وزیر خارجہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بطور وزیر خارجہ بھٹو نے اعتماد، جذبے اور جوش کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں کشمیر سمیت کئی موضوعات پر تقاریر کیں۔ جو آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کا درجہ رکھتی ہیں۔ بھٹو اپنی تقریر کا آغاز کرتے تو سامعین پر ایک سحر طاری ہوجاتا۔ پوری دنیا کے سفارت کار ہمہ تن گوش ہوکر آپ کی بات سنتے۔ بھٹو کی انگلش زبان میں کی ہوئی تقاریر سفارتکاری اور ادب کا شاہکار تھیں۔ کیونکہ اردو ہو یا انگلش، اچھا بولنے کے لیے علم کے ساتھ زبان پردسترس ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھٹو دنیا کی نامور درسگاہوں سے فارغ التصحیل تھے۔ جن میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آکسفورڈ یونیورسٹی، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے شامل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بھٹو کو عالمی سیاست، قانون، ادب اور انگلش زبان پر ملکہ حاصل تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو سب سے زیادہ پڑھے لکھے سربراہِ حکومت اور سربراہِ ریاست تھے۔ تعلیم کے ساتھ قدرت نے بھٹو کو فنِ تقریر کا تحفہ عطا کر رکھا تھا، جس نے بھٹو کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے۔

1965 کی جنگ کے بعد، 1966 میں ایوب خان نے اعلانِ تاشقند پر ہندوستانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بعد بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ کیونکہ بھٹو چاہتے تھے کہ 1965 کی جنگ کے نتیجے میں کشمیر کا مسلئہ حل کیا جائے، مگر ایوب خان اس بات کے حامی نہ تھے۔ اور یوں اعلانِ تاشقند کے بعد بھٹوکا پہلا سیاسی دور ختم ہوا۔

اعلانِ تاشقند کے ٹھیک ایک سال بعد 1967 میں بھٹو نے پی پی پی کی لاہور میں بنیاد رکھی۔ اور یوں پی پی پی کے بطن سے ایک نئے بھٹو نے جنم لیا۔ ایک ایسا بھٹو جو آواز تھا غریب ہاری کی، کسان کی، محنت کش عوام کی، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور کی، اور ہراس شخص کی، جو زبان ہوتے ہوئے بھی بولنے سے قاصر تھا۔ پی پی پی کے قیام کے بعد بھٹو نے پاکستان کی سیاست کو اشرافیہ کے محلات سے نکال کر غریب کی جھونپڑیوں، سڑکوں اور چوراہوں میں لا کھڑا کیا۔ چند سال کے اندر اندر محض اپنی سیاسی بصیرت اور قابلیت کے بل بوتے پر عوامی حمایت حاصل کی اور 1970 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد مغربی پاکستان میں (جو آج کا پاکستان ہے) اکثریت حاصل کی۔ اس کے برعکس مشرقی پاکستان میں (جو آج کا بنگلہ دیش ہے) شیخ مجیب الرحمان نے اکثریت حاصل کی۔ یہ نتیجہ پاکستان کی تقسیم کا باعث بھی بنا۔ بھٹو کے ناقدین اس سانحے کا ذمے دار بھٹو کو گردانتے ہیں۔ مگر بھٹو اس امر کے واحد قصوروار نہ تھے۔ اس کے کئے دیگر محرکات بھی تھے۔ 1970 کا انتخاب محض تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اور پاکستان دولخت ہوگیا۔

دسمبر 1971 میں جب حالات فوج کے بس سے باہر ہوگئے تو یحییٰ خان نے استعفیٰ دیتے ہوئے اقتدار بھٹو کے حوالے کردیا۔

یحییٰ خان نے جب اقتدار چھوڑا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کا عہد ہ سنبھالا۔ اس طرح بھٹو کے سیاسی سفر کا تیسرا اور اہم ترین دور شروع ہوا۔ ان کے ناقدین آج تک بھٹو کو بغیر وردی آمر سمجھتے ہیں۔ لیکن شاید لوگ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت کے دستور کا تقاضا ہی یہی تھا۔ بہرحال! جب بھٹو نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ 1971 کی جنگ کے بعد چالیس ہزار سے زائد پاکستانی فوجی ہندوستان کی جیلوں میں قید تھے اور پچاس ہزار مربع میل سے زائد پاکستانی رقبہ ہندوستان کے قبضہ میں تھا۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1972 میں ہندوستان کا دورہ کیا، اور میدان جنگ ہیں ہاری ہوئی بازی، مذاکرات کی میز پر بدل کر رکھ دی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشہورِ زمانہ شملہ کا معاہدہ ہوا۔ جس کے باعث پاکستان کو اپنی فوج اور ہندوستان کے قبضہ میں موجود رقبہ دونوں واپس مل گئے۔

اس معاہدے پر پاکستان کی جانب سے بھٹو اور ہندوستان کی جانب سے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے۔ شملہ معاہدہ کے بعد بھٹو کی شہرت پاکستان میں بلندیوں کو چھو رہی تھی اور وہ عوامی اجتماعات سے بھرپور خطابات کررہے تھے۔ اس واقعے کےا یک سال بعد 1973 میں پاکستان کو پہلا وفاقی پارلیمانی دستور دیا، جو بھٹو کا ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ تھا۔ اس دستور میں قادیانیوں کے بارے میں کئی دہائیوں پر محیط تنازعہ بھی ختم ہوا اور انہیں غیر مسلم اقلیت دستوری طور پر قرار دے دیا گیا۔ یہ بھٹو کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔

دستور کے علاوہ پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور کھل کر اس کا دفاع بھی کیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھا۔ آج بھی پاکستان ان کی بنائی ہوئی خارجہ پالیسیوں کے اثرات سے فائدہ حاصل کررہا ہے۔ بھٹو کی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے چین اور روس جیسے ممالک پاکستان کے قریب آئےاور پاکستان مسلم امہ کی نگاہوں کا مرکز بھی بن گیا۔ تمام عالم اسلام کے سرکردہ رہنما بھٹو کو اپنا محسوس کرنے لگے۔ اسی دور میں عالمی اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس لاہور میں ہوا۔ اسی دور میں اسلامی بینک جیسے ادارے بنے اور او آئی سی جیسے فورم بھی۔ تاکہ مسلم دنیا کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ بات مغربی حکمرانوں کو بالکل پسند نہ آئی اور مغربی دنیا بھٹو کی دشمن ہوگئی۔

مارچ 1977 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر پی پی پی نے بھٹو کی قیادت میں کامیابی حاصل کرلی۔ مگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے نتائج مسترد کرتے ہوئے بھٹو کے خلاف تحریک شروع کردی۔ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بھٹو نے حزب اختلاف کی جماعتوں سے مذاکرات کیے اور دوبارہ انتخابات کے لیے تیار بھی ہوگئے۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاء لگاتے ہوئے بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔ بھٹو کو کابینہ سمیت نظر بند کردیا، اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ اور تین ماہ میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یوں بھٹو کی سیاسی زندگی کے تیسرے دور کا خاتمہ ہوا اور آغاز ہوا ایک عہد ساز شخصیت کے زوال کا۔

نظربندی ختم ہونے کے بعد بھٹو نے عوامی جلسے شروع کردیے اور عوام نے ایک بار پھر ان کا والہانہ خیر مقدم کیا۔ ضیاءالحق کو احساس ہوگیا کہ اگر انتخابات ہوئے تو بھٹو کو شکست دینا مشکل ہوگا۔ اسی دوران معروف وکیل احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ کھول دیا گیا۔ جس میں بھٹو نامزد ملزم تھے اور یوں پاکستا ن کی عدالتی تاریخ کے ایک متنازعہ ترین مقدمے کا آغاز ہوا۔ اسی مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کو پھانسی دی۔ جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کرلیا اور بھٹو کو 24 مارچ 1979 کے دن حتمی طور پر پھانسی کی سزا سنا دی گئی، جس پر عمل درآمد کی تاریخ 4 اپریل 1979 مقرر کی گئی۔ سزا پر عمل درآمد سے پہلے مسلم دنیا کے کئی نامور رہنماؤں نے ضیاء الحق سے رحم کی استدعا کی۔ مگر تمام کاوشیں بے کار ثابت ہوئیں۔ آخر 4 اپریل 1979 کی تاریخ آن پہنچی اور ایک عظیم رہنما اپنا سر بلند کیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

بھٹو کے سیاسی سفر کا چوتھا دور بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ عدالتی فیصلے پر پی پی پی کے نامور رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا:

شہادتوں کے تقابل سے کچھ ملا تو نہ تھا
کیا تھا جبر عدالتوں نے یہ فیصلہ تو نہ تھا

چند باتیں اور: جس دور میں بھٹو کو عروج ملا، اسی دور میں کئی عالمی رہنما مشرقِ وسطیٰ، عرب دنیا، ایشیا، امریکا اور لاطینی امریکا کے سیاسی افق پر نمودار ہوئے۔ ان رہنماؤں میں لیبیا کے کرنل قذافی، سعودی عرب کے شاہ فیصل، فلسطین کے یاسر عرفات، متحدہ عرب امارات کے شیخ زید، چین کے وزیراعظم چواین لائی، انقلابِ چین کے سرخیل اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ماؤزِے تنگ، جدید چین کے بانی ڈنگ ژاؤ پنگ، کیوبا کے فیڈل کاسترو، ہندوستان کی نامور سیاسی رہنما اندرا گاندھی، شاہِ ایران محمدرضا پہلوی، امریکی صدر رچرڈ نکسن، اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر وغیرہ شامل تھے۔ ان تمام عالمی رہنماؤں نے بین الاقوامی سیاست پر بہت گہرے نقوش چھوڑے۔ ان تما م رہنماؤں کی موجودگی میں بھی بھٹو کو اقوام عالم میں غیر معمولی پذیرائی ملی۔

عزت، شہرت، اور کامیابیوں کے باوجود بھٹو سمیت کوئی بھی عالمی رہنما مکمل شخصیت کا مالک نہیں تھا۔ ہر ایک نے کہیں نہ کہیں ایسی غلطی کی کہ جس کا خمیازہ بعد ازاں اقوام نے بھگتا۔ مثلاً انقلابِ چین کے بعد (جسے چینی Cultural Revolution کہتے ہیں)، چین نے بدترین معاشی بحران کا سامنا کیا اور شاید اس بات کا ادراک چیئرمین ماؤزِے تنگ کو نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ چینی قوم جسے انقلاب کے عوض ایک خوشحال چین کی امید تھی، چیئرمین ماؤ سے کچھ مایوس ہوگئی۔ ٹھیک اسی طرح بھٹو نے کئی اہم محاذوں پر کامیابیاں سمیٹیں، مگر معاشی میدان میں مار کھا گئے۔ کیونکہ بھٹو کے دور میں سوشلزم اور کمیونزم کا بہت شوروغوغا تھا، جس سے بھٹو بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور پاکستانی معیشت کو کمیونسٹ ممالک کے نظام پر استوار کرنا شروع کردیا۔ پاکستان میں یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ جس کے باعث پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا اور اس تجربے کے منفی اثرات آج بھی پاکستان بھگت رہا ہے۔


بھٹو کی ذات کے چند پہلو آج کی سیاسی شخصیات کے لیے ایک سبق ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی سرپرست ضیاءالحق، بھٹو کے بدترین مخالف تھے۔ اور اس بدترین مخالفت کے دور میں بھٹو نے بہادری اور جوان مردی کے ساتھ قیدو بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا اور پھانسی بھی جھول گئے۔ دروغ بر گردنِ راوی، گرم پانی کی ایک بالٹی کے لیے بھی ہائی کورٹ میں بحث ہوتی تھیٍ، جس کے بعد بھٹو کو پانی نصیب ہوتا۔ جب نواز شریف جیل میں تھے، انہیں بہترین ماحول، گھر کا کھانا، دست بستہ ڈاکٹرز، اور بغیر روک ٹوک میل ملاقات کی سہولت بھی میسر تھی۔ اس کے باوجود ان کی بیماری پر دختر سمیت پوری جماعت سیاست کررہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھٹو بننا اور تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنا آسان نہیں۔

پی پی پی کے لوگ وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کی زبان پر بہت تنقید کرتے ہیں، لیکن شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی مخالفوں کو جلسوں میں للکارنے کا رواج بھٹو نے ہی ڈالا۔ بھٹو اپنے تلخ لہجے، اپنی اناپرستی اور سیاسی حریفوں کے متعلق بدزبانی کے وجہ سے بھی مشہور تھے۔ جس کا بہرحال کئی بار ان کو نقصان ہوا۔ ضیاءالحق کا مارشل لاء بھی اسی رویے کی پیداوار تھا۔ یہ تمام خصلتیں آج وزیراعظم عمران خان کی ذات گرامی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ بھٹو کے زوال میں ان خصلتوں کا بہت کردار تھا۔ عمران خان کو بھٹو کی شخصی کمزوریوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک نظریہ کا نام تھا، جسے پھانسی نہ مار سکی۔ جس کی جماعت ایک سیاسی تحریک کا نام اور غریب کی ترجمان تھی۔ جس کی جماعت کو آمرانہ ادوار کے جبر نہ ختم کرسکے اور پھانسی کے بعد بھی لوگ ''زندہ ہے بھٹو'' کا نعرہ لگاتے رہے۔

بھٹو کی ذات پر سیاسی نوعیت کے کئی الزام لگ سکتے ہیں، مگر مالی بدعنوانی کا ایک بھی الزام بھٹو سمیت ان کے کسی قریبی رفیق پر بھی نہیں لگ سکتا۔ مگر آج کی پی پی پی اور اس کی قیادت کرپشن کا استعارہ ہے، جس نے بھٹو کا نظریہ دفن کرکے زرپسندی کا نظریہ اپنا لیا۔ اور یوں غریب، کسان، مزدور، ہاری، مظلوم، محکوم، اور بے نوا پاکستانی کا بھٹو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مر گیا۔ جسے بلاول بھٹو زرداری کا ٹرین مارچ بھی زندہ نہیں کرسکتا۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں