تحریک انصاف میں اتحاد کی اہمیت

ہوسکتا ہے تحریک انصاف کی قیادت ملک کے استحصالی نظام کی دم میں نمدا باندھنا چاہتی ہو۔


Zaheer Akhter Bedari April 11, 2019
[email protected]

غیر نظریاتی جماعتوں میں اختلافات دشمنیاں کھینچا تانی کوئی حیرت کی بات نہیں ، ماضی میں بھی اس قسم کی وارداتیں ہوتی رہی ہیں۔ حال میں بھی ہورہی ہیں، مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی لیکن اگر کوئی جماعت جس کا تعلق مڈل کلاس سے ہو ، اس دعوے کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے کہ وہ پرانے فرسودہ استحصالی نظام کو بدل کر ایک ''نیا نظام'' نافذ کرے گی تو اس پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھے اور فروعی مسائل میں الجھ کر عوام میں مایوسی پھیلانے کی غلطی نہ کرے۔

تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد عوام بجا طور پر یہ امید کر رہے تھے کہ یہ جماعت عوام کے استحصال کو روکنے کی کوشش کرے گی اور تحریک انصاف کی قیادت اس حوالے سے کچھ اقدامات بھی کر رہی ہے لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کے اعلیٰ سطح رہنماؤں میں اختلافات کی خبروں نے عوام میں تذبذب اور غیر یقینیت پیدا کردی ہے جو نہ تحریک انصاف کے حق میں ہے نہ ملک و ملت کے مفادات میں۔

عمران خان کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اگر ایک بار یہ اختلافات کی لہر اٹھ جاتی ہے تو وہ اس طرح پھیلتی جاتی ہے کہ اس کو روکنا آسان نہیں رہتا۔ تحریک انصاف یقینا کوئی نظریاتی جماعت نہیں کہ اس سے متحد رہنے کی امید کی جاسکے لیکن پاکستان جس بے لگام لوٹ مار کا شکار ہے اس کے تناظر میں شاید بااختیار قوتیں بھی احتساب بلکہ سخت احتساب اور نتیجہ خیز احتساب کی حمایت کریں گی لیکن جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس قدر مایوس کن ہے کہ احتساب احتیاط میں بدل کر رہ گیا ہے۔

ہوسکتا ہے تحریک انصاف کی قیادت ملک کے استحصالی نظام کی دم میں نمدا باندھنا چاہتی ہو لیکن وہ ایسا کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور اگر صورتحال اسی طرح رہی تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے عوام فرانس کے عوام کی طرح اٹھ کھڑے ہوں اور کرپشن کے وارداتیوںکے خلاف ''سخت اقدامات'' کی طرف نہ چلے جائیں۔ اس کے امکانات اس لیے روشن نظر آرہے ہیں کہ فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور فرانس کے عوام ملک میں نظم و ضبط کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن اشرافیہ کی لوٹ مار جب حد سے گزر جاتی ہے تو ملکوں کی انتظامی سرحدوں پر انقلاب فرانس دستک دینے لگتاہے۔ کیا پاکستان میں لوٹ مار، اقربا پروری سمیت بے شمار برائیاں اس مقام پر نہیں آگئیں کہ عوام دانستہ یا نادانستہ انقلاب فرانس کی طرف پیش رفت کر رہے ہوں؟

المیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے دیوتاؤں نے اشرافیائی مفادات کو اس طرح تحفظ دے دیا ہے کہ ایک کٹر نظریاتی سیاسی جماعت بھی آسانی سے عوام کو اس استحصالی نظام کے خلاف کھڑا نہیں کرسکتی کیونکہ تعذیر کی اتنی اونچی دیواریں عوام کے سامنے کھڑی کردی جاتی ہیں کہ انھیں پار کرنا آسان نہیں رہتا۔

پاکستان کی اشرافیہ اس لیے اس قدر مضبوط ہے کہ اس میں صنعتی اشرافیہ کی بڑی اتحادی زمینی اشرافیہ بن گئی ہے دونوں مل کر اس ''بلا'' کا مقابلہ کر رہے ہیں جسے عرف عام میں احتساب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طاقت عوام ہوتے ہیں اور پاکستان میں صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اشرافیہ نے عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو توڑ دیا ہے۔ ملک میں قوم پرستی کے جذبات کو فروغ دے کر اشرافیہ ایک طرف اپنے گرد قوم پرستی کے حصار کو مضبوط کر رہی ہے تو دوسری طرف حکمران جماعت کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک ایسا طوفان کھڑا کردیا ہے کہ حکمران جماعت کے لیے اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں رہا۔

ایسے مخدوش اور غیر یقینی حالات میں جب میڈیا میں حکمران جماعت کے اختلافات بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتے ہیں تو عوام میں مایوسی پیدا ہونا ایک فطری بات ہوجاتی ہے۔ تحریک انصاف ہرگز کوئی انقلابی جماعت نہیں بلکہ مختلف مفادات رکھنے والے عناصر کا ایک مجموعہ ہے جس میں زقند لگانا کوئی مشکل کام نہیں ، اگر تحریک انصاف جو اسٹیٹس کو ،کو توڑنے کی دعویدار ہے اگر صرف اسٹیٹس کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی لیکن اس کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد ضروری ہے۔

مقبول خبریں