16 سے 20 اپریل
بھارت نے ایک غیر اصولی اور غیر منصفانہ مسئلہ کشمیر کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں روایات کے خلاف بھارت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اس نقصان کو بھارتی حکمران طبقے نے ناک کا مسئلہ بنا لیا ہے، دوسرے بھارتی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔
برسراقتدار حکومت کو پریشانی ہے کہ اپوزیشن حالیہ جھڑپوں میں بھارت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی حکومت کے خلاف سخت پروپیگنڈہ کرے گی جس سے انتخابات میں حکومت یعنی بی جے پی کو نقصان ہو سکتا ہے، اس ممکنہ نقصان کے خوف نے مودی حکومت کو اس قدر ڈس بیلنس کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے میڈیا میں مسلسل خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، 8 اپریل کے اخبارات کی پہلی سرخی اسی حوالے سے ترتیب دی گئی ہے جس کا عنوان ہے:''16 اپریل سے 20 اپریل تک بھارتی حملے کی اطلاعات''۔
اس خبر کی تفصیل کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت 16 سے 20 اپریل کے دوران پاکستان کے خلاف ایک اور جارحیت کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاک بھارت جنگ کے بادل ابھی چھٹے نہیں بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کے لیے پلوامہ جیسا واقعہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان نے ممکنہ بھارتی جارحیت سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک، جی فائیو کے سفیروں، عالمی برادری اور پاکستانی عوام کو آگاہ کر دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری بھارت کے اس غیر ذمے دارانہ رویے کا نوٹس لے اور بھارت کو اس راستے پر چلنے سے روکے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارتی جارحیت کے اقدامات کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو اس ممکنہ جارحیت سے آگاہ کر کے اپنا فرض تو پورا کر دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کا مردہ گھوڑا اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کر سکے گا؟ اگر اقوام متحدہ اس قدر طاقتور اور بااختیار ادارہ ہوتا تو کشمیر کا مسئلہ 7دہائیوں سے اس طرح لٹکا ہوا نہ ہوتا۔ اقوام متحدہ کو دنیا بھر کے ملکوں کے تنازعات حل کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن وہ اپنی ذمے داریاں اس لیے پوری نہ کر سکی کہ وہ بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی۔ اقوام متحدہ میں 7 دہائیاں پہلے ہی کشمیر کے مسئلے کو پیش کیا گیا تھا اور اس نے فیصلہ دیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس فیصلے کا کیا حشر ہوا ساری دنیا جانتی ہے۔
اگر طاقتور ملکوں کی بالادستی اور من مانی قبول کر لی جائے تو اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ دنیا کا واحد ادارہ ہے جو دنیا کے ملکوں کے تنازعات حل کرنے کا ذمے دار ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ادارہ روز اول ہی سے لاچاری کا مظاہرہ کرتا آ رہا ہے کیونکہ یہ ادارہ آزاد نہیں رہا بلکہ بڑی طاقتوں کا غلام بنا ہوا ہے۔ اگر دنیا کے تنازعات کا غیر جانبداری اور آزادی سے حل تلاش کرنا ہو تو اس ادارے کی ازسر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ اس ادارے کی ازسرنو تشکیل ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس بات کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ یہ ادارہ بڑی طاقتوں کے دباؤ سے آزاد اور مکمل خودمختار ہو۔
اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں جو تنازعات ہیں وہ ان ملکوں کے اسپانسر نہیں ہیں بلکہ سامراجی ملکوں کے اور ان کے تشکیل کردہ اسلحہ انڈسٹری کے مالکان کے ہیں جس کے جاری رہنے کے لیے ہتھیاروں کی دھڑلے سے فروخت ضروری ہے اور ہتھیاروں کی فروخت اسی صورت میں ممکن ہے جب جنگیں ہوں، اسلحے کی ضرورت ہو اور اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے سامراجی ایجنٹ دنیا میں ملکوں کے درمیان تنازعات پیدا کرتے ہیں جس کا نتیجہ جنگوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اسلحے کی صنعتوں میں اربوں کے اسلحے کی ڈیمانڈ پیدا کر دی جاتی ہے، یہ وہ سازش ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے دلال عرصے سے کر رہے ہیں اور غریب اور پسماندہ ملکوں کو اس سازش کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
بھارت اور پاکستان دو پسماندہ ترین ملک ہیں جہاں کے رہنے والے عوام میں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ایسے غریب ملکوں میں حکومتوں کی ذمے داری بلکہ اولین ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کو غربت اور تنگ دستی کی لعنتوں سے چھٹکارا دلوائیں۔ اس ذمے داری کو ادا کرنے کے بجائے حکومتیں عوام کو جنگوں کی بھٹی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ یہ لوگ عوام کے نمایندے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے دلال ہیں۔
بھارت پاکستان کے مقابلے میں ایک بڑا اور طاقتور ملک ہے۔ انسانی فطرت کے مطابق وہ پاکستان جیسے کمزور ملک پر حاوی رہنا چاہتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی اس کمزوری کا ازالہ ایٹمی ہتھیار بنا کر کر لیا ہے۔ اب بھارت کے لیے یہ مشکل آن پڑی ہے کہ وہ روایتی ہتھیاروں کی جنگ میں تو پاکستان پر حاوی آ سکتا ہے لیکن ایٹمی جنگ میں کسی متحارب ملک پر حاوی آنا مشکل ہے کیونکہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کا مطلب لاکھوں بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہے اور کوئی ملک اتنی بڑی بدنامی مول لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے اس وقت بھارت اس صورتحال کا شکار ہے اس کے آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی ہے۔
بھارت نے ایک غیر اصولی اور غیر منصفانہ مسئلہ کشمیر کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے اس حوالے سے وہ ایسی غیر انسانی حدود میں داخل ہو گیا ہے کہ کشمیر جیسے عالمی مسئلے پر مذاکرات ہی سے انکاری ہے۔ دنیا کی آبادی 7 ارب انسانوں پر مشتمل ہے اگر خدانخواستہ کسی بھی حکمران طبقے کی حماقت اور جہالت سے ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو وہ نہ ہندو کو دیکھے گی نہ مسلمان کو جو بھی اس کی پہنچ میں آئے گا وہ اسے جلا کر راکھ کر دے گی۔ ایسی خطرناک صورتحال میں پاکستان پر حملے کی سوچنا کم ازکم مودی جیسے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے کو زیب نہیں دیتا۔ امید ہے کہ 16 سے 20 اپریل امن سے گزر جائے گا اور مستقبل میں بھی 16 سے 20 اپریل کبھی نہیں آئے گا۔