تباہی و بربادی کا فسانہ‎

ثنا اکبر  منگل 16 اپريل 2019
پاکستان اور بھارت کے درمیان سازگار ماحول پیدا کرنے کی اشد ضروت ہے۔(فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان اور بھارت کے درمیان سازگار ماحول پیدا کرنے کی اشد ضروت ہے۔(فوٹو: انٹرنیٹ)

انسانی اور قدرتی وسائل سے مالامال دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیا کا خطہ پاک بھارت تنازعات کے باعث آج تک عدم استحکام کا شکار ہے۔ 1.5 ارب کی مجموعی آبادی پر محیط دونوں ممالک آزادی کے 72 برس گزرنے کے باوجود اس قابل نہیں ہوسکے کہ دو طرفہ تنازعات کو باہمی افہام وتفہیم سے طے کرکے عوام کو وہ تمام بنیادی سہولیات فراہم کرسکیں جو ان کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔

دونوں ایٹمی ممالک کے مابین اہم ترین حل طلب مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں جنگ و جدل اور مذاکرات کی پوشیدہ ایک طویل تاریخ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کا مؤقف اصولی اور جموں وکشمیر کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ جبکہ بھارت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر نہ صرف مذاکرات کی میز سے راہ فرار اختیار کی، بلکہ اس مسئلے کو ہمیشہ بندوق کی نوک پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی 1952 سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک دبانے کی خاطر 8 لاکھ بھارتی فوجی و نیم فوجی دستے قتل و غارت کی بدترین تاریخ رقم کرنے میں مشغول ہیں۔

بھارت کے زیرانتظام جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی کی ایک سرکردہ تنظیم جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے مطابق گزشتہ برس بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے حصے میں سیکیورٹی دستوں کی کارروائیوں اور مسلح حملوں سمیت بدامنی کے سیکڑوں واقعات میں کل 586 افراد شہید ہوئے۔

بھارتی فوج کے مظالم، کشمیریوں کی شہادت اور عورتوں کی بے حرمتی کے باعث جنت نظیر وادی تباہی و بربادی کا فسانہ بن چکی ہے۔

بھارت میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات اور دہشتگردی سے متعلق حقائق واضح کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے کہیں نہ کہیں بھارتی حکومت کا ہاتھ ہوتا ہے، تاکہ سیاسی فوائد کے حصول کی آڑ میں پاکستان پر الزام لگا کر اور جارحانہ سفارتکاری شروع کرکے پاکستان کو عالمی سطح پر دہشتگرد ملک قرار دے کر اسں قدر بے دست و پا کیا جائے کہ وہ غیر اعلانیہ طور پر بھارت کی کالونی بن کر کشمیریوں کا حق مانگنے کے بجائے اپنے بقا کی بھیک مانگنا شروع کردے۔ جیسے حال ہی میں بھارتی جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور کی ناکامی کو چھپانے کے لیے خودساختہ پلوامہ واقعہ کروا کر جنگی جنوں بھڑکانے کے لیے بالاکوٹ میں پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرکے جیش محمد کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ مگر بعدازاں مودی سرکار کو اپوزیشن اور عالمی ذرائع کے سامنے ثبوت پیش نہ کرنے پر جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح ماضی میں بھارت نے 2002 میں پارلیمنٹ اور 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سرحدوں پر فوج تعینات کرکے نہ صرف جنگ کا ماحول پیدا کردیا، بلکہ سلامتی کونسل اور برسبین میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو لشکرطیبہ اور اس جیسی کالعدم تنظیموں کا حمایتی قرار دے کر پابندیاں لگوانے کی قرارداد پیش کی۔ جسے عین موقع پر چین نے ویٹو کی طاقت کے ذریعے ناکام بنایا۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کی حقیقت بھارت کی وزارت داخلہ کے ایک انڈر سیکریٹری آروی ایس منی یہ کہہ کر بے نقاب کرچکے ہیں کہ یہ حملے خود بھارتی حکومت نے کروائے تھے اور ان کا بنیادی مقصد انسداد دہشتگردی سے متعلق قوانین پوٹا (پریونشن آف ٹیررسٹ ایکٹیویٹیز ایکٹ) اور یواے پی اے (ان لافل ایکٹیویٹیز پریونشن ایکٹ) کو مزید سخت کرنا تھا۔

نیز پلوامہ واقعہ ہو یا پارلیمنٹ و ممبئی اٹیک؛ بھارت ہمیشہ بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے دہشتگردی کے ہر واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کرکے طویل عرصے تک برائے نام مذاکرات کی گردان جاری رکھتا ہے۔

جنگی جنون میں مبتلا بھارت کی سیاسی قیادت کو خطے کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے نفرت انگیز سیاست، اسلحے کی دوڑ،انا پرستی اور سلامتی و رواداری کو فروغ دیتے ہوئے بھارتی عوام کو بدعنوانی، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے درپیش مسائل پر قابو پاکر بہتر مستقبل فراہم کرنے کی جانب گامزن ہونا ہوگا۔ بھارت میں غربت اور بے روزگاری کی تصویر کشی درج ذیل بیانات سے باآسانی کی جاسکتی ہے۔

بھارتی عالمی سطح پر جانی پہچانی ناول نگار ارون دھتی رائے کے مطابق ’’بھارت میں گزستہ ایک عشرے میں 5 لاکھ کسانوں نے مالی تنگی اور بھوک وافلاس سے بے زار ہوکر خود کشی کی ہے‘‘۔

اخبار بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق ’’نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ جس میں 15 سے 29 سال کے شہری مرد 7.18 فیصد کے پاس کوئی کام نہیں۔ اسی عمر کی 29.2 فیصد خواتین بے روزگار ہیں‘‘۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہما نشو کہتا ہے کہ ’’روزگار کا بحران ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ ممبئی میں پی ایچ ڈی افراد کا ویٹر بننا یا گجرات میں چند ہزار روپے کی نوکری کے لیے لاکھوں افراد کا درخواست دینا مودی سرکار کی گورننس پر سوالیہ نشان ہے‘‘۔

ایک جانب دونوں ممالک کے درمیان ایسا سازگار ماحول پیدا کرنے کی اشد ضروت ہے جہاں نئے تصورات جنم لیں۔ کیونکہ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں کی نفرتیں، رنجشیں، عدم برداشت اور اسلحے کی دوڑ کے باوجود قوموں کے درمیان امن وسلامتی کو فروغ ملا اور عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے بھارت پر اسی طرح دباؤ نہ ڈالے جیسے مشرقی تیمور، بوسنیا اور جنوبی سوڈان پر ڈالا تھا، تو امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ثنا اکبر

ثنا اکبر

بلاگر نے بین الاقوامی تعلقات میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا ہوا ہے اور نجی کمپنی میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اردو ادب، فن خطابت اور ٖصحافت سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔