کرپشن کہاں ہے، یہ ریاست مدینہ ہے

سعد اللہ جان برق  منگل 16 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

اگر کوئی ہم سے پوچھے، زیادہ امکان تو نہیں کیونکہ  پوچھنے کے لیے دماغ چاہیے ہوتاہے اور اس کا فیصلہ تو بین الااقوامی طور پر ہوچکاہے کہ اپنے یہاں کی کھوپڑیوں میں دماغ کا تناسب ایک ہزار ایک ہے لیکن یہ گئے وقتوں کی بات ہے جب الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا نہیں ہوا کرتے تھے اور جھوٹ بچارا سینے کے بل رینگ رینگ کر یا لڑھکن بابا کی طرح لڑھک لڑھک کرچلتاتھا کیونکہ بچارے کے ’’پاؤں‘‘ نہیں ہوتے تھے لیکن اب تو اس کے باقاعدہ پر لگادیے گئے ہیں۔ ہوا کے دوش پر سفر کرتاہے اور سیدھا گھر کے اندر اور پھر دماغ کے اندر پہنچ جاتا ہے، خوبصورت ماڈلز،چمکدار لباسوں اور نوکدار اینکروں، دانشوروں اور ماہرین کی مدد سے۔

لیکن پھر بھی اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ انسان کی بے شرمی اور ڈھٹائی کی کوئی حد یا پیمانہ ہے تو ہم مکمل پاکستانی بن کر بے دھڑک جواب دے دیں کہ نہیں،کبھی نہیں اور کہیں نہیں۔بے شرمی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری میں یہ پہلے بھی چمپئین تھا، اب بھی ہے اور آیندہ بھی رہے گا کہ ایسا کوئی نہ کسی ماں کی کوکھ سے جناہے نہ کسی انڈے سے نکلا ہے اور نہ گملے یا باغ میں اگا ہے جو اس سے یہ اعزاز چھین لے، یہ ڈھیٹ نمبرون بلکہ عالمی نمبرون بلکہ کائنات میں نمبرون ہے اور رہے گا۔آپ نے کبھی دیکھاہے کہ کوئی چرندہ کسی پرائے کھیت میں چررہاہو اور ساتھ ہی ساتھ کہتاجارہاہو کہ میں تو اس کھیت کو’’بو‘‘ رہاہوں۔

ایسا کوئی پرندہ دیکھاہے جو غلے کا ستیاناس کرتے ہوئے گارہا ہو کہ میں تو فصل کی رکھوالی کر رہا ہوں۔یا کوئی ایسا درندہ دیکھاہے جو خون ٹپکاتے ہوئے منہ اور زبان سے کہہ رہاہو کہ میں تو جنگل کے جانوروں کا محافظ ہوں۔ہاں ایک بلی سے ایک مرتبہ یہ سناتھا،جب اس نے دو لڑتے ہوئی چڑیوں کو حلق کے نیچے اتارکرکہا تھا، وہ تو اچھا ہوا کہ میں آگئی ورنہ یہ دونوں تو لڑلڑتے ایک دوسری کی جان لے لیتیں۔نہیں دیکھاہے نا۔لیکن ہم نے دیکھاہے، دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے بلکہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔لیکن آپ بھی’’وہ‘‘ ہیں نا۔

کہ بڑے آرام سے چورراشی اور نہایت ہی گھناؤنے کرپٹ لوگ کرپشن ختم کرنے کی قوالیاں گارہے ہیں۔ لٹیرے سرراہ بیٹھ کرلوگوں کو لوٹتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم اس راستے کے محافظ ہیں۔اور بڑے بڑے چور اپنے آگے کی طرف اشارہ کرکے چور چورچلارہے ہیں۔پھٹی ہوئی بنیان اور سوراخ سوراخ شلوار میں بیٹھ کر چنے چبارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمارا تو عقیدہ اور چلن ہے اچھا کھانا ۔پچھلے دنوں ایک شخص نے ہمارے آگے رونا رویا کہ رنگ روڈ میں ذیلی سڑک بنائی جارہی ہے جس نے ہماری چھوٹی بچیوں کے خیراتی اسکول کا راستہ بندکردیاہے اور بچیوں کو آدھاکلومیٹر پیدل گھوم کر اپنے اسکول پہنچناپڑتاہے۔

ہم نے اسے سمجھایا کہ کرتادھرتاوں کے پاس جاکر اپنی تکلیف بتاؤ۔بولا ،گئے تھے لیکن وہاں پتہ چلا کہ جن جن لوگوں نے اپنے پلازے، مارکیٹیں اور اڈے وغیرہ بچاناتھے وہ ایک ایک کروڑ روپے  ’’بطورشکرانہ‘‘ یا نذرانہ یا ہرجانہ یا سوور کی بوٹی کھلاچکے ہیں اور اگر ہمیں بھی خود کو بچانا ہو تو چلیے آپ آٹھ آنے کم دے دیجیے ،آخر قوم کی بچیوں کا معاملہ ہے، ہم اتنے ظالم تو نہیں ہیں۔پھر دوسرا راستہ بتایا کہ متعلقہ وزیر کے پاس چلے جاؤ کہ اس کا تو اوڑنا بچھونا ہی عدل وانصاف ہے بلکہ عدل وانصاف اسے اتنا پسند ہے کہ اپنے گینگ کو بھی انصاف والوں کے حوالے کردیا اور پورا خاندان اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر صرف انصاف کا بول بالا کرنے میں لگا ہوا ہے۔

بولا ، اسی کا تو یہ خاص الخاص آدمی ہے جو شکرانے وصول کررہا ہے اور دھڑلے سے وصول کررہاہے کہ سیاں بھئے کوتوال تو ڈرکاہے کا بلکہ اسی شکرانہ وصولی کے لیے تو یہ نیا کھڑاک رچایا جارہا ہے۔ اس پر ہم پشتو کا وہ ٹپہ سنانے والے تھے کہ یہ زمانہ غریب کا نہیں ہے، سیدھاآرام سے اپنا سامان باندھ دوسرے جہاں سدھار لے۔لیکن اس نے ہمیں موقع دیے بغیر فریاد کی اصل وجہ بتائی کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس مسئلے پر ایک کالم لکھیں۔ہم چپ رہے پھر ہنس پڑے پھر رو دیے۔ عرض کیا۔

نکالا چاہتاہے کام کیا طعنے سے توغالب

ترے بے مہر کہنے پر وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

اگر تمہارا خیال ہے کہ ہمارے کالم کو پڑھنے کے لیے ’’بالا‘‘ لوگ تیار بیٹھے ہیں کہ کب کالم آئے اور کب ہم اسے پڑھنے کی سعادت حاصل کریں اور پھر اس کے مندرجات پر فوراً نوٹس لے کر لاؤ لشکر سمیت اس خرابی کو درست کرکے ثواب دارین حاصل کریں، تو یہ بتی اپنے کانوں سے، خیال سے، دماغ سے نکال دو۔کہ سب کو خدمت ملک وقوم سے اتنی فرصت کہاں کہ ہمارا کالم پڑھیں اور اگر غلطی سے پڑھ بھی لیں تو باباجی ہم تم سے زیادہ ان کو پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہورہاہے اور کون یاکون کون کررہاہے کہ اس پوری گاڑی کے ’’ڈرائیور‘‘تو وہ خود ہیں۔سب اور سارے کچھ جانتے ہیں لیکن انجان تو ہم تم جیسے کالانعاموں کے سامنے بنے ہوئے ہیں، کیا وہ خود یہاں مسجد بنانے یا مسجد میں صفائی کرنے یا ثواب دارین کمانے کے لیے آئے ہیں۔

کیا ان کو کسی بھڑ نے کاٹاتھا ،کسی ہاتھی نے ان کے سر پر پاؤں رکھا یا کسی باؤلے کتنے نے ان کو بھنبھوڑا تھا کہ اپنا سب کچھ تیاگ کر انصاف کا بول بالا کریں یا کرپشن جیسی معصومہ کی دل آزاری کرکے بددعائیں لیں۔ذرا اگر موقع ملے تو ان  کے بنگلے کے اندر جاکر دیکھیں وہی کرپشن جس کا رونا لے کر تم آئے ہو، اندر دلہن بنی بیٹھی ہوگی، اپنے اس سہاگ کے انتظار میں۔ہاتھی کے دانت جس کا جدید نام حکومت اور میڈیاہے کچھ بھی کہیں، پرنالہ بھی وہیں ہے اور پہلے سے بہت بڑا۔کنوئیں میں وہی کتاپڑاہے لیکن اور زیادہ سڑا ہوا بدبودار۔ایم سی ان انوائرمٹیل سائنس ہے، اچھا خاصا لائق ہے لیکن جہاں سے بھی کسی ملازمت کا ’’فیس داخلہ‘‘ لاتاہے، وہ ہماری استطاعت میں نہیں، اس لیے اسے ابھی تک چپراسی بھی نہیں بناپائے اور نہ کوئی امکان ہے کہ نومن تیل ہمارے پاس نہیں اور نوکری کی رادھا یا تو نومن تیل والے کے لیے ناچتی ہے یا ’’تیلیوں‘‘ کے ہاں۔کرپشن ختم  بلکہ ہوچکی ہے۔

ہمارا نعرہ ہے، ریاست مدینہ قائم کریں گے سود کرپشن کے سائے میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔