مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

سعد اللہ جان برق  بدھ 17 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

آپ سمجھ گئے ہوں گے لیکن جتنے بھی سمجھ گئے ہوں گے اتنے ہی ’’نہیں‘‘ سمجھے ہوں گے کیونکہ آپ کی سمجھ دانی کی ساخت ہی ایسی ہے، بالکل اس گھڑے کی طرح جسے ایک سردارجی خریدنا چاہتے تھے۔ دکاندار نے گھڑے کی جو قیمت بتائی، سردار جی نے اس کی آدھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ گھڑے میں دو نقص ہیں، ایک تو اس کا منہ نہیں ہے اور دوسرے اس کے پیندے میں اتنا بڑا سوراخ ہے۔ گھڑا اس وقت اوندھا رکھاہوا تھا۔ گھڑے ہمیشہ اوندھے رکھے ہوتے ہیں، پاکستانی جو ہیں۔ محبوب خزان نے بھی کہاہے کہ:

سب سمجھتے ہیں اور سب کچھ چپ ہیں

کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں

لیکن اس نے صرف ان لوگوں کے بارے میں کہا ہے جو سمجھتے ہیں اسی لیے چپ رہتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں نہیں کہا ہے جو نہیں سمجھتے اور کہتے رہتے ہیں۔ یا جو کہتے رہے ہیں وہ ہی زیادہ بولتے ہیں اور ان دونوں کٹیگریوں کا تناسب پاکستان میں آٹے اور نمک کا ہے۔ اس لیے تو اتنا شور ہے۔ اوپر کا مصرعہ بھی شاید بلکہ یقیناً حسب معمول حسب عادت اور حسب سمجھ آپ غلط سمجھ رہے ہوں کہ شاید ہم بھی اس مرض کا ذکر کر رہے ہوں جس کا شاعر نے ذکر کیاہے یعنی:

مریض عشق پر رحمت خدا کی

مرض بڑھتاگیاجوں جوں دوا کی

شاعر نے تو اپنی بیماری کا ذکر کیا ہے اور ہمیں اپنے مرض کا ذکر کرنا مقصود جو اتفاق سے قرض کا ہم قافیہ ہے، اس لیے ہمارا اشارہ بھی اسی مرض یعنی قرض کی طرف ہے، اس لیے اس وقت آپ یہ شعر اس طرح پڑھیں گے تو حسب حال ہوگا کہ

مریض’’قرض‘‘ پر رحمت خدا کی

قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

لیکن اس ’’مرض قرض‘‘ کا رونا ہم آپ کے لیے نہیں رو رہے ہیں نہ ہی ملک کے لیے رو رہے ہیں کہ۔ میری دھرتی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی اور چاند میری زمین پھول میرا وطن۔ بلکہ اس غریب کسمپرس اور لاغر وضعیف مریض کے لیے رو رہے ہیں جس کا نام ’’روپیہ‘‘ ہے اور بمقام پاکستان صاحب فراش ہے بلکہ تقریباً چل چلاؤ کے دن ہیں۔ بچارے کا حلق میں گھنگرو بج رہاہے اور یہاں وہاں سے آکسیجن منگوا کر سانس کا تسلسل برقرار رکھا جا رہا ہے۔ لوگ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اس کا یہ مرض خاندانی اور جدی پشتی ہے۔ کوئی کہتا ہے اسے بدمعاش مہنگائی نے بہت مارا ہوا ہے اور اس ہنرمندی سے مارا ہے کہ اوپر سے تو صحیح سلامت نظرآ رہا ہے یعنی  کوئی میڈیکولیگل کہیں نہیں بنتا لیکن اندر ہی اندر اس کی ہڈیوں کا چورا ہو گیا ہے۔ آپ کو شاید تعزیرات ہند کے دفعات کا پتہ نہیں ہو گا۔

اس لیے بتائے دیتے ہیں کہ تعزیرات ہند عرف تعزیرات پاکستان کے مطابق کہیں میڈیکولیگل تب بنتا ہے جب کسی تیز دھار آلے یا فائر سے زخمی کیا گیا ہو۔ بلنٹڈ یعنی کند دھار والی کسی بھی چیز لکڑی، اینٹ،  پتھر، لوہے سے اگر مار مار کر کسی کا بھرکس بھی نکالا گیا ہو، کوئی کیس نہیں بنتا۔ ہاں ہڈی ٹوٹنے کا بھی کیس بن جاتا ہے چنانچہ پولیس والے اب ایسی مار تو نہیں مارتے جس سے ’’پرچہ‘‘ بنے لیکن کسی شریف آدمی کو ملزم اور ملزم کو مجرم بنانے کے لیے مار کے ایسے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ لوگ اگر اتنا دماغ کہیں اور لگاتے تو شاید کوئی بڑی ایجاد ان کے نام ہو جاتی۔ لیکن ہمارا یہ مریض روپیہ جو کسی زمانے میں، اپنے ڈنکے بجاتا اور بجواتا تھا، بڑے پہلوانوں کو پچھاڑ کر دھول چٹواتا تھا اور ناممکن کو ایک اشارے میں ممکن کر دیتا تھا،

ہونی کو انہونی کر دے انہونی کو ہونی

ایک جگہ جب مل جائیں امر اکبر انتھونی

اسی کانام امر بھی تھا، اکبر بھی اور انتھونی بھی۔ کیونکہ سارے ناموں والے اس کی مالا جپتے تھے۔ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ، جب مالاکنڈ کی سرنگ کھودنے کا منصوبہ بنا تو ایک دیسی افسر نے انگریز افسر سے پوچھا مگر یہ تو بڑا ناممکن ساکام ہے کرے گا کون؟ انگریز افسر نے جیب سے تانبے کا بڑا سا پیسہ نکال کر دکھایا کہ یہ کرے گا اور اس نے کر دکھایا تھا۔ لیکن آج وہ تنومند، تندرست اور فاتح عالم رستم زمان ’’روپیہ‘‘ بسترمرگ پر پڑا کراہ رہا ہے، اس کا وہ طاقتور لشکر جو اسی کی اولادوں پر مشتمل تھا، پیسہ ٹکہ آنا دونی چونی آٹھنی وغیرہ تو کب کے فنا ہو چکے اور یہ بچارا اکیلا دکیلا ہارا ہوا پہلوان اپنے بچاؤ کی فکر میں رو رہاہے اور ایک دن یہ کہہ کر آخری ہچکی لے لیگا۔

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس ’’قرض کے مرض‘‘ نے آخر کام تمام کیا

ایک استاد اور شاگرد کہیں جا رہے تھے۔ ایک جگہ کسان لوگ ’’خرمن‘‘ میں غلہ صاف کر رہے تھے، ان میں غلے کا ایک ڈھیر بہت بڑا دکھائی دے رہا تھا۔ شاگرد نے کہا،  غلے کا بہت بڑا ڈھیر ہے۔ استاد نے کہا، ہاں اگر درمیان سے خالی نہ ہو تو؟۔ شاگرد نے حیرانی سے کہا، مگر اتنا بڑا ڈھیر اندر سے خالی کیسے ہو سکتا ہے؟ استاد نے سمجھایا، خالی ہو سکتا ہے اگر اس کا مالک کسان ’’قرض دار‘‘ ہو تو۔ خیر باقی باتیں تو ہوتی رہیں گی کہ ہمارا اور کوئی کام ہی کیا ہے۔ باتیں کرنا، باتیں لکھنا، باتیں سننا، باتیں کھانا، باتیں پینا، اوڑھنا، پہننا اور ایک دوسرے کو مارنا۔ اور وہ سلسلہ توچل رہا تھا، چل رہا ہے اور چلتا رہے گا لیکن اس ’’بچارے‘‘ قریب المرگ روپیہ کا کچھ کیجیے۔

زاں پیشتر کہ بانگ بر آئد فلاں نماند۔ ایک پشتو ٹپہ ہے۔ آج وقت ہے آنکھیں کھول کر میرا دیدار کر لو پھر سارا جہان ڈھونڈو گے اور میں نہیں ملوں گا۔ التشخیص ولا امراض کے سلسلے میں پہلا کام مرض کی تشخیص کرنا ہوتا ہے۔ عام خیال تو یہ ہے کہ اس بچارے کو مہنگائی کا مرض لاحق ہے۔ اور مہنگائی ہی اسے مار گئی ہے۔ لیکن ہم حکیم ’’ڈھیلا مار‘‘ نہیں ہیں کہ مرض کو چھتے کی طرح ’’ڈھیلا مار کر اور زیادہ بڑھائیں۔ اس حکیم ڈھیلا مار کا قصہ بعد میں کبھی سنائیں گے، پشتو میں اس کا نام حکیم ’’لوٹ مار‘‘ تھا کیونکہ مٹی کے ڈھیلے یا ڈھیلی کو ’’روڑا ‘‘ کہتے ہیں اور روڑا یا ڈھیلا مارنے والے کو ڈھیلا مار یا لوٹ مار کہتے ہیں، اس کا قول زرین تھا کہ میں تو ’’مرض‘‘ کو ’’ڈھیلا‘‘ مارکر’’بھڑوں‘‘ کو اور چھیڑتا ہوں۔

ہاں تو ہم حکیم ڈھیلا مار نہیں واقعی حکیم ہیں اور اس مرض کی جو ’’روپیہ‘‘ کو لاحق ہے اصل تشخیص کریں گے، مہنگائی تو وہ وجہ نہیں ہے کیونکہ پڑوسی ملک میں بھی مہنگائی ہے لیکن وہاں کا روپیہ صحت مند ہے، اس لیے مہنگائی اس کا کچھ نہیں بگاڑ رہی ہے، اصل وجہ کوئی اور ہے جس نے روپیہ کو اتنا کمزور کیا ہوا ہے کہ مہنگائی اسے چت کر دیتی ہے۔ اور ہمیں وہ مرض اور اس مرض کے ’’جراثیم‘‘ کا بھی پتہ ہے جو ہمارے روپے کو  لاحق ہیں لیکن کیاکریں جب ان کا علاج ہی کلاشن کوف کی گولی کے سوا اور کوئی نہ ہو تو تجویز کرنے سے فائدہ کیا۔

یہ اتنا شور مچ رہا ہے، اتنے ’’سپرے‘‘ (نقلی) کیے جا رہے ہیں حتیٰ کہ ایک پورا محکمہ ’’انسداد‘‘ پر مامور کیا گیا ہے لیکن وہ محکمہ خود ایسی دوائیں چھڑک رہا ہے جو جراثیم کا انسداد نہیں کرتیں بلکہ امداد اور افزائش کرتی ہیں، اس لیے تیار رہیے کسی بھی وقت اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے لیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔