گرتے ہیں، چوٹ بھی لگتی ہے!

سدرہ بانو ناگوری  منگل 23 اپريل 2019
 بچوں کے حوالے سے غیر ضروری حساسیت کا مظاہرہ نہ کریں۔ فوٹو: فائل

 بچوں کے حوالے سے غیر ضروری حساسیت کا مظاہرہ نہ کریں۔ فوٹو: فائل

اس روز میں نے جو کچھ دیکھا وہ میرے لیے تعجب خیز تھا۔

وہ کراچی کی ایک معروف تفریح گاہ تھی جہاں ٹہلتے ہوئے میں بچوں کے لیے مخصوص ’’پلے ایریا‘‘ میں چلی آئی تھی۔ ننھے منے چہرے خوشی سے نہال تھے۔ بہت سے بچے اپنے بہن بھائیوں اور فیملی کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھے۔

کوئی جھولا جھول رہا تھا تو کوئی سلائیڈنگ کا مزہ لے رہا تھا۔ کچھ اپنی ماؤں کی انگلی تھامے ارد گرد کے نظارے دیکھنے میں مگن تھے۔ اسی دوران میری نظر ایک چار پانچ سالہ بچے پر پڑی جو جھولے سے اترتے ہوئے پیر پھسل جانے سے گر پڑا تھا۔ موقع پر موجود سبھی افراد نہایت فکرمندی اور پریشانی کے ساتھ اس بچے کی طرف متوجہ ہوگئے۔ جھولے سے ذرا فاصلے پر کھڑی اس کی ماں فوراً بچے کی طرف دوڑی، مگر لمحہ بھر بعد ہی سب نے دیکھا کہ وہ بچے کو اٹھانے یا بہلانے کے بجائے ہنستے ہوئے تالیاں بجارہی ہے۔

سبھی کی طرح میں حیران ہورہی تھی کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ یہ تو سبھی سمجھ گئے تھے کہ بچے کو کوئی ایسی چوٹ نہیں لگی جو تشویش کا باعث ہو۔ یقیناً وہ ٹھیک تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے بچے کی ماں سے پوچھا، ’’آپ کا بچہ گرگیا ہے اور آپ ہنس رہی ہیں۔‘‘ اس نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا اور اپنے گرے ہوئے بچے کی طرف اشارہ کیا جو اب سنبھل چکا تھا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تھا۔ اور اب اپنی ماں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس دوران ماں نے بچے کے کپڑے جھاڑے اور یہ یقین کرلیا کہ اسے کوئی خاص تکلیف نہیں ہے اور جسمانی نقصان نہیں پہنچا ہے۔

اب وہ اسے دوسرے جھولے میں بٹھا کر میری طرف پلٹی اور کہا کہ ’’آج میں اپنے بچے کو سہارا دے کر اٹھا دیتی تو یہ ساری زندگی سہاروں کی تلاش میں رہتا اور میں اس لیے ہنسی تاکہ وہ نہ روئے بلکہ پریشانی اور مشکل حالات میں خود کو سنبھالنا سیکھے۔ وہ اگر رو دیتا تو کم زور پڑجاتا۔ میں نے لمحوں میں جان لیا تھاکہ اس کا پیر پھسلا ہے اور وہ صرف زمین پر گرا ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اچانک گر جانے پر حیرت زدہ ہے اور بس۔ تبھی میں نے بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرنے سے گریز کیا۔‘‘ اس واقعہ کو ایک عرصہ بیت گیا مگر میں آج تک اس ماںکے کہے گئے جملے بھول نہیں سکی۔ وہ ایک سبق تھا جس نے نہ صرف میری سوچ کا زاویہ بدل ڈالا۔

یہ عام مشاہدہ ہے کہ جہاں بچے کو ذرا سی چوٹ لگی، معمولی اور چھوٹا سا بھی زخم لگ گیا یا کہیں بچہ کھیل کود کے دوران گر گیا تو مائیں بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ دوڑ کر بچے کو اٹھا لیتی ہیں اور بار بار اس سے سوال کرتی ہیں کہ کہاں چوٹ لگی، تکلیف تو نہیں ہو رہی اور چند گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی اس کیفیت سے باہر نہیں نکلتیں۔ گھر کے دیگر افراد سے بھی باری باری الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ بچے کی چوٹ کا ذکر ہوتا ہے۔

یوں بچہ یہ سب سن کر اور گھر والوں کی اپنے لیے ہم دردی دیکھ کر اپنی چوٹ اور اس وقتی اور معمولی تکلیف کو ایسی انوکھی بات سمجھ لیتا ہے کہ آئندہ بھی ہر شخص سے ہم دردی اور خود ترسی کا متقاضی رہتا ہے۔ اگر بچے اس طرح جذباتی طور پر کم زور پڑ جائیں تو وہ ذرا ذرا سی تکلیف پر ماں کی طرف لپکتے ہیں۔

اس ہم دردی کے نتیجے میں یہ اس قابل بھی نہیں رہتے کہ اسکول گلی یا محلے میں کوئی ہم عمر بچہ انہیں کسی طرح ڈرائے دھمکائے یا جسمانی تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے تو کم از کم وہ اپنا دفاع ہی کرسکیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ انہیں کس طرح اس مار سے بچنا چاہیے اور کیا طریقہ اپنایا جائے کہ وہ اس سے محفوظ رہ سکیں۔ وہ اس موقع پر کسی بڑے کی مدد چاہتے ہیں جب کہ تھوڑی سی ہمّت اور بہادری سے وہ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسرے بچے کو نقصان پہنچا کر، اسے شکست دے کر ہی گھر لوٹے بلکہ یہ کہ وہ ایسی صورتِ حال کا مقابلہ کرنا اور کسی کے شَر سے بچنا جانتا ہو۔

جو مائیں بچوں کے معاملے میں غیرضروری حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور ان کے لیے ہر معاملے میں ہم دردی اور جذباتی جملوں کا سہارا لیتی ہیں، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اہلیت اور صلاحیت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ انہیں اپنے آس پاس کوئی ہم درد نہ ملے تو یہ اپنی کسی بات کا اظہار بھی کھل کر نہیں کر پاتے۔ یہ خوف کا شکار رہتے ہیں۔ ابتدائی عمر میں وہ سوچتے ہیں کہ باہر جانے یا کسی میدان میں کھیلنے کے دوران ہم گر جائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟

کیا یہاں کوئی میری مدد کرے گا؟ اس قسم کی باتیں ان کو خاص قسم کی مشکل میں ڈال دیتی ہیں جو ان کو آگے بڑھنے اور خود پر بھروسا کرنے سے روک دیتی ہیں۔ یہ اپنی زندگی کا طویل حصہ سہاروں کی تلاش میں گزار دیتے ہیں۔ یہ گرتے تو ہیں، مگر اٹھ نہیں پاتے، اور انتظار کرتے ہیں کہ کوئی ان کی مدد کرے۔ کیا کوئی ماں یہ چاہے گی کہ اس کا بچہ یوں الجھی ہوئی زندگی گزارے؟ یقیناً نہیں۔  یاد رکھیے زندگی میں خوشی اور غم، مسکراہٹیں اور ٹھوکریں بھی ہماری منتظر رہتی ہیں۔ اپنے بچے کو وہ اعتماد اور حوصلہ بخشیں کہ یہ ٹھوکریں اس کے لیے سبق بن جائیں اور وہ سہارے ڈھونڈنے کے بجائے خود کو سنبھالنا اور کام یاب ہونا سیکھے۔ بچے گرتے ہی ہیں اور یہ جاننا ضروری ہے کہ اسے کہاں چوٹ لگی اور اس کی نوعیت کیا ہے، یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ بچے کو کتنی تکلیف محسوس ہو رہی ہے، مگر یہ بھی دیکھیں وہ کس بلندی سے گرا ہے یا کس چیز سے ٹکرایا اور الجھا ہے۔

آپ اس کے چہرے کے تاثرات سے لمحہ بھر میں جان سکتی ہیں کہ وہ کتنی تکلیف محسوس کر رہا ہے اور اسے کوئی جسمانی نقصان پہنچا ہو گا یا نہیں۔ اس کا اندازہ کرنے کے بعد غیر ضروری طور پر ہم دردی کرنا اور جذباتی ہونے کے بجائے اسے سنبھلنے کا کہیں۔ ضروری ہدایات دیں اور بتائیں کہ کس طرح احتیاط سے کام لے کر وہ کوئی کام انجام دے تو کسی بھی چوٹ اور حادثے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بچے کو سینے سے لگاکر اسے یہ جملہ ضرور کہیے کہ میرا بچہ تو بہت بہادر ہے۔ بہادر بچے روتے نہیں۔ یہ جملہ آپ کے بچے کی شخصیت مضبوط بنائے گا۔ بچپن میں چھوٹی چھوٹی چوٹیں لگتی ہیں مگر بڑے ہونے کے بعد بڑے بڑے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے تو بچے کو ان کے لیے تیار کریں۔ اسے مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کی تعمیر بھی کیجیے تاکہ کبھی وہ حالات سے گھبرا کر ٹوٹنے یا بکھرنے کے بجائے خود کو سمیٹ سکے۔ اسے کسی کے سہارے کی ضرورت نہ پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔