’’مفاد پرستی اور بے حسی کا نیا کلچر‘‘

ظفر سجاد  اتوار 28 اپريل 2019
سیاستدانوں اور خسارہ زدہ اداروں کے ملازمین کی انوکھی منطق۔ فوٹو: فائل

سیاستدانوں اور خسارہ زدہ اداروں کے ملازمین کی انوکھی منطق۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز خوفناک ترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو جو ہوش رّبا اعداد وشمار سامنے آئے اس نے حکومت کے ہوش ہی اڑا دئیے۔

سابقہ حکومتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو اس صورتحال کا بخوبی اندازہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت پہلے تین ماہ میں ہی گھٹنے ٹیک دے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور دوست ممالک کے تعاون سے ملکی معیشت کو سہارا مِلا، ڈگمگاتی کشتی کچھ سنبھل گئی۔

اپوزیش جماعتوں نے عمران خان کو ’’بھکاری خان‘‘کا خطاب دیا ۔ مگر سنجیدہ عوامی حلقے کو سابقہ حکومتوں اور موجودہ اپوزیش کے اس روّیے سے خاصا صدمہ پہنچا کہ ہمارے موجودہ حکمران صرف عوام کیلئے اپنی جھولی پھیلا رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو اس مقام تک پہنچانے والے ہی حکومتی کوششوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

مفاد پرستی اور بے حِسی کے اس روّیے نے عوام کو خاصا دل برداشتہ کر رکھا ہے۔کچھ عرصہ سے وطن عزیز میں مفاد پرستی کا ایک ’’نیاکلچر‘‘ پیدا ہوا ہے کہ’’ چاہے قوم بھوکی مر جائے ہمیں تو سونے کا نوالہ ہی چاہیے‘‘ اس وقت ہمارا ملک اور کئی ملکی ادارے خسارے سے دوچار ہیں ۔ عوام کی حالت نہ گفتہ بِہ ہے، ہر سال 28کھرب روپے تجارتی خسارہ ہو رہا ہے مگر تمام سیاستدانوں کو شاہانہ مراعات چاہئیں، پیشہ ور اور مفاد پرست سیاستدان تو اپنی جگہ مگر جب حکومتی سرپرستی میں چلنے والے خسارہ زدہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے سابقہ اور موجودہ افسران اور ملازمین بھی شاہانہ مراعات طلب کرنے کیلئے احتجاج کا سلسلہ اپناتے ہیں تو بیچاری قوم شُشدر ہی رہ جاتی ہے، منافع بخش قومی اداروں کو تباہ کرنے والے کس منہ سے اپنی ’’خدمات‘‘کا صلہ مانگ رہے ہیں؟

قومی ائیرلائن پی آئی اے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کسی زمانے میں یہ ایک مثالی ادارہ تھا ۔ اس کا سلوگن تھا بلکہ اب بھی ہے ’’بے مثال لوگ لاجواب سروس ‘‘ ۔ پی آئی اے کا شمار چند اچھی ساکھ والی فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا، یہ ایک منافع بخش ادارہ تھا، پی آئی ے کے ملازمین کو پُرکشش پیکیج دیا جاتا تھا بلکہ اب بھی دیا جاتا ہے، تنخواہ کے علاوہ رہائش، میڈیکل اور سفری سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ بیرون ممالک فلائیٹس کرنے والے فضائی عملے کو بیرون ممالک میں فائیوسٹار ہوٹلوں میں قیام وطعام کی سہولت کے علاوہ اخراجات کیلئے ڈالرز کی شکل میں معقول رقم بھی ادا کی جاتی ہے۔ پندرہ روزہ انٹرنیشنل فلائیٹس کرنے والے ملازمین کو سفری اخراجات کی مد میں تقربیاًٍ ایک ہزار ڈالر ادا کئے جاتے ہیں جو کہ عموماً بچ ہی جاتے ہیں۔

اس قدر منافع بخش نوکری ہو تو کِس کا دل نہیں للچائے گا ۔ پہلے پی آئی اے میں میرٹ کی بنیاد پر ملازمین بھرتی کیئے جاتے تھے پھر حکمرانوں نے اپنے منظور نظر افراد کو نواز نے کیلئے اس ادارے میں بھی سفارشی بھرتیاں شروع کردیں۔ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پی آئی اے ملازمین نے اپنی یونین قائم کر لیں ۔ پیپلزیونٹی اور ائیر لیگ کے ملازمین کے کارنامے سامنے آنے پر قوم اچھی خاصی اضطراب میں مبتلاہوئی، عوام میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں سفارشی اور نااہل افراد اس قومی ادارے کا ستیاناس ہی نہ کردیں۔

ہوا بھی یہی، اسوقت صورتحال یہ ہے کہ دسمبر 2018 ء تک یہ ادارہ 415 ،ارب روپے خسارے کا شکار تھا۔ جب بھی حکومت نے ملکی خسارہ کم کرنے کی غرض سے اس ادارے کی نجکاری کا فیصلہ کیا تو پی آئی ے کے تمام ملازمین نے احتجاج شروع کردیا۔ اس وقت یہ لاجواب سروس فضائی مسافروں کیلئے ایک سزا بن چکی ہے، محکمہ زبردست خسارے کا شکار ہے، سابقہ حکومتوں نے سفارشی افراد کی بھرتیوں سے ادارے پر خاصا بوجھ ڈال رکھا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی آئی اے کے ایک جہاز کیلئے 700 ملازمین کا بوجھ ہے جبکہ ’’سعودی ائیرلائن ‘‘میں ایک جہاز کیلئے 240 ملازمین اور ’’ایمریٹس‘‘کے ایک جہازکیلئے 140 ملازمین ہیں۔ جبکہ یہ ممالک تیل کی دولت سے بھی مالا مال ہیں۔

انھیں اپنی ائیرلائن کیلئے بھاری زرمبادلہ خرچ کرکے تیل نہیں خریدنا پڑتا ۔ پی آئی اے کے ملازمین اپنی مراعات سے بھی دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہر فلائیٹ میں مفت سفر کرنے والے موجودہ اور ریٹائر ملازمین کی بھی مطلوبہ تعداد موجود ہوتی ہے اس کے علاوہ اب بھی ملازمین کے اہل خانہ کو بیرون ممالک سیروتفریح کیلئے مفت سفری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ مسافروں کو کئی کئی دن سیٹ کا انتظار کر نا پڑتا ہے مگر ان ملازمین کے اہل خانہ کیلئے ’’باہمی تعاون ‘‘کی بنیاد پر ہر وقت سیٹ میسر ہوتی ہے۔ خسارے کے باوجود قومی ائیرلائن کے ریٹائر ملازمین کو پنشن کی مدَ میں بڑی رقم ادا کی جا رہی ہے جس کا سارا بوجھ خزانے پر ہے۔ سابقہ حکومتوں نے اپنے ووٹ بنک اور مفادات کیلئے ہزاروں فالتوں ملازمین تو بھرتی کر لئے مگر اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ عوام کی جیبوں سے اُن نااہل ملازمین کو تنخوائیں اور پنشن دی جا رہی ہے کہ جو اس منافع بخش ادارے کو شدید خسارے میں لے گئے اور اب اپنی ’’خدمات ‘‘کا بہتر صلہ مانگ رہے ہیں۔

دسمبر2018 ء تک پاکستان اسٹیل مِل کا خسارہ 480 ارب روپے تھا ۔ جون 2015 ء سے یہ ادارہ بند پڑا ہے مگر ہر ماہ ملازمین کو 37 کروڑ روپے تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ اس ادارے میں بھی سفارشی ادارے کا بوجھ ڈالا گیا اس ادارے کو تباہ کرنے میں دو پارٹیوں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا خاص کردار رہا ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی تعداد 197 ہے۔دسمبر2018 ء تک ان اداروں کا خسارہ ایک کھرب 57 ارب روپے تھا ۔ زیادہ تر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے خسارے میں ہی چل رہے ہیں ۔ ان اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں اور پینشن عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے ادا کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی بدحالی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر حکومت ان اداروں کی نجکاری یا اسے بند کرنے کا عندیہ دیتی ہے تو ان اداروں کی یونینیں ملازمین کو لے کر سڑکوں پر آ جاتی ہیں۔ مصروف سڑکوں پر ا حتجاج شروع کردیا جاتا ہے۔ حکومت بالآخر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور انھیں اپنا ارادہ موُخر کرنا پڑتا ہے۔

یوٹیلٹی سٹورز بھی حکومتی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ ناقص حکمت عملی اور ملازمین کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے عوام کو اب سستی اشیائے خورونوش کی سہولت میسر نہیںہے مگر جب بھی حکومت اِسے محدود کرنے یا بند کرنے کی کوشش کرتی ہے اس ادارے کے متعلقہ افراد بھی احتجاج شروع کردیتے ہیں، حکومت کواپنا ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔اگر سیا ستدانوں کی کرپشن سامنے لائی جائے ان سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب مانگا جائے اور یہ دولت قومی خزانے میں واپس جمع کرنے کا کہا جائے تو یہ سیاستدان حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔

جلسے ، جلوس اور ٹرین مارچ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا یہ احتجاج حکومت کے خلاف نہیں عوام کے خلاف ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کی دیکھا دیکھی اب عام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین نے بھی احتجاج کی روش اپنالی ہے۔کبھی ینگ ڈاکٹرز، کبھی نرسز، کبھی پیر ا میڈیکل سٹاف، کبھی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، کبھی اسپیشل پرسنز، کبھی کسی ادارے اور کبھی کسی محکمے کے لوگ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج شروع کردیتے ہیں اور اُس وقت اٹھتے ہیں جب تک اپنے جائز و ناجائز مطالبات نہیں منوالیتے ، ان کی ان مراعات کا بوجھ ملکی خزانے پر پڑ تا ہے جو کہ عوام کے ٹیکسوں اور کمائی سے بھرا جاتا ہے۔جب پاکستان میںکمپنیوں کی نجکاری کی گئی تو وہ کمپنیاں جلد ہی خسارے سے نِکل گئیںاور منافع میں چلی گئیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال PTCL ہے ، جسکی سروس بھی لاجواب ہو چکی ہے اور یہ ادارہ منافع بخش بن چکا ہے، بجلی کے ترسیلی نظام کی ذمہ دار بعض کمپنیوں کی نجکاری کے بعد خسارہ ختم ہوا یا کم ہوگیا ۔جن الیکٹرک کمپنیوں کی نجکاری نہیں کی گئی اب بھی وہ بھاری خسارے میں ہیں۔

اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست اور عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے خسارے میں چلنے والے تمام اداروں کی نجکاری کردی جائے یا انھیں بند ہی کردیا جائے۔ جو افراد ملکی دولت واپس کرنے سے انکاری ہیں یا عوام کی دولت ہڑپ کرنے پر بضد ہیں انھیں عوامی عدالت میں پیش کیا جائے۔ عوام کو شعور دیا جائے کہ ان کا احتجاج حکومت کے خلاف نہیں ، ریاست اور عوام کے خلاف ہے۔ عوام ان کا آلہ کار بننے کی بجائے خود ان کے احتجاج کو ناکام بنائیں۔ حکومتیں آتی جاتی ہیں۔ ریاست اور عوام اصل ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ہوتے ہیں ان کے مفادات کو ہمیشہ مقدم رہنا چاہیے ۔ سونے کا نوالہ عوام کو ملِنا چاہیے نہ کہ ملک اور ملکی اداروں کو نقصان پہنچانے والے افرادکو۔۔؟

’’ لوٹ جاتی ہے اک نظر اِدھر بھی !
ایک طرف سابق حکمران اور اُن کے حواری اپنے کھربوں روپے کا حساب کتاب دینے سے گریزاںہیں، اور موجودہ حکمران اور انکی ٹیم محلات میں رہ کر غریبوں کی فلاح وبہبود کے منصوبے بنارہی ہے۔ سرکاری افسران اور ملازمین مزید مراعات حاصل کرنے کیلئے آئے دن احتجاج کررہے ہیں۔دوسری طرف و طن عزیز پاکستان میں 3 1/2 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 20 سال سے کم 2 لاکھ بچیاں محض غربت کی وجہ سے جسم فروشی پر مجبور ہیں۔

کم ازکم 60 لاکھ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ضمیر فروشی پر مجبور ہیں،15 سال سے کم عمر کی 9 لاکھ بچیاں گھریلوملازماوٗں کے طور پر کام کررہی ہیں،پونے دوکروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ملک کی 6 کروڑآبادی متوازن خوراک اور مناسب طِبی سہولتوں سے محروم ہے۔کم ازکم 40 لاکھ بیمار افراد مناسب علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے اور انکا مرض پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ 22 کروڑ میں سے کم ازکم 17 کروڑ عوام بمشکل زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں،ا سکی وجہ ہماری معاشی واقتصادی بدحالی ہے، اپنے لئے مزید مراعات اور سہولیات کا مطالبہ کرنے والے کبھی یہ سوچیں گے کہ عوام کو اس حال تک پہنچانے والا کون ہے؟ ملک کو خسارے سے دوچار کرنے والے ’’مہربان‘‘اور اداروں کو تباہی کے دہانے پہنچانے والے ’’بے ایمان‘‘ مراعات کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔

خسارہ زدہ ملک اور اداروں کے استحصالی مزید مراعات مانگ رہے ہیں
پاکستان 97ارب ڈالر کا مقروض ہے جسکا روزانہ 6 ارب روپے سود اور ادائیگیوں کی مَد میں خرچ کیا جارہا ہے۔ یعنی 1کھرب ،80 ارب روپے ماہانہ ادا کئے جارہے ہیں، مگر بیرون ممالک کے بنکوں میں پاکستانیوں کے400 ارب ڈالر موجود ہیں۔دوسری جائیدادیںالگ ہیں، عام پاکستانی اسقدر کسمپرسی کا شکار ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان چند ڈالر قرضے کیلئے غیر ممالک کی منتیں کر رہے ہیںمگر ان بے ضمیرپاکستانیوں کو شرم نہیں آتی کہ جنہوں نے ملک کی لوٹی ہوئی دولت باہر جمع کروا رکھی ہے، جب اِن سے دولت واپس لانے کا کہا جاتا ہے تو سونے کا نوالہ کھانے کی ضد کرنے والے یہ لوگ ’’سابقہ خدمات‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس بھوکی مرتی عوام سے مزید مدد مانگتے نظر آتے ہیں۔ایسا نظارہ دنیا کے کسی ملک میں نظر نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔