لکشمی تک پہنچنے کے لیے ’’لک‘‘ چاہیے

سعد اللہ جان برق  منگل 30 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

ہماری تلاش اگر آپ کو یاد ہو اگرچہ اس کی توقع آپ جیسے ’’حافظہ گم‘‘ یعنی ماضی گم سب کچھ ’’گم سم‘‘ سے نہیں کی جاسکتی لیکن پھر بھی…

بہرحال ہم نے اور ہمارے’’ذریعہ سفر‘‘ ظفرڈفرابن ڈفر ٹٹوئے تحقیق نے جب کرپشن اور مہنگائی کو ’’امر‘‘ دیکھ کر یہ ٹھان لی تھی کہ ہم اس پرندے کو تلاش کریں گے جس میں ان دونوں بلاؤںِِ، عفریتوں اور آفتوں کی جان ہے اور پھر ایک ویران مثل بیابان،مانند ریگستان کے ایک لوہے اور سیمنٹ کے درخت کے نیچے ایک ننگ دھڑنگ فقیر ملنگ سے ملاقات ہوئی تھی اور اس دانائے راز،ریش دراز، مبتلائے سوز وساز بزرگ نے ہمیں بتایا تھا کہ ان بلاؤں کی جان ایک’’طوطے‘‘ میں ہے جو نہایت ہی ’’دشوارگزار‘‘ مقام پر فولادی پنجرے میں بند ہے اور جس کے گرد خاردارتاروں،اسلحہ بردار پہرہ داروں اور چیرنے پھاڑنے والے خونخواروں کی دیواریں ہیں۔

لیکن افسوس کہ اس کے بعد خاموش اور ہمہ تن گوش کو فراموش کرکے بے ہوش ہوگیا اور پھر جب ہم نے اسے ہلایا کہ کلام کا سلسلہ وہیں سے جوڑے جہاں سے ٹوٹا تھا۔لیکن پتہ چلا کہ اس کے سارے پران پکھیرو اڑچکے ہیں۔اب کیا کریں، ہم اور ٹٹوئے تحقیق نے بیک وقت ایک دوسرے سے پوچھا اور بیک وقت جواب بھی ملا کہ طوطے کی تلاش۔۔پھر ہم نکلے ٹٹو لے کر، ایک سڑک پر بمقام اکرام آباد انعام آباد ایک موڑ آیا جہاں ہم دل توڑآئے پورا تو نہیں لیکن مایوسی کی دراڑیں اس میں پڑگئیں۔کیونکہ یہاں وہاں پتہ کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں پہنچنے کے لیے اتنے ہفت خواں سرکرنا پڑیں گے کہ جن کے لیے کم ازکم دس رستموں کی ضرورت ہوگی جب کہ ہم اور ہمارا ٹٹوئے تحقیق مل کر آدھے پونے رستم کے برابر بھی نہ تھے۔

زڑہ می پہ داستے زائے کے بائیلو

دکوہ قاف دغرہ نہ ئے دنگ دی دیوالونہ

ترجمہ۔میں ایسی جگہ دل ہار آیا ہوں جہاں کی دیواریں کوہ قاف سے بھی اونچی ہیں۔

لیکن آپ تو جانتے ہیں، ہم اور ہمارا ٹٹوئے تحقیق جب تحقیق کی ٹھان لیں تو کسی کے باپ یا اپنے باپ بلکہ خود تحقیق کی بھی نہیں سنتے۔

جب دوجاسوس کریں محسوس

کہ دنیابڑی خراب ہے اور ہمیں خراب ہونا

یا ہونی کوانہونی کریں انہونی کو ہونی۔ایک جگہ جب جمع ہوجائیں امر اکبر اور انتھونی۔امر اکبر تو ہم اور ہمارا ٹٹوئے تحقیق تھے اور انتھونی ہماری ضد۔ چل پڑے۔لیکن تھوڑی ہی دیر میں جب ہم ایک مقام پر پہنچے تو پہلا ہفت خوان آیا، جس پر ہماری اتنی تحقیق وتفتیش ہوئی کہ پیٹ میں صبح کاکیاہوا ناشتہ تک باہر نکال لیا،کہ ہم نے کوئی ایسی خطرناک چیز تو نہیں کھائی ہے جو آگے اکرام آباد انعام آباد میں دھماکا کرکے پورے شہر کو بلاسٹ کرے۔

سب کچھ ٹھیک نکلا لیکن یہ سب کچھ ٹھیک ہی ہمارا سب کچھ غلط کرگیا، قانون نافذ کرنے والوں نے یہ سوال ہمیں دے مارا کہ آخر ہمارا سب کچھ کاغذات سمیت اتنا ’’ٹھیک‘‘کیوں ہے، کچھ نہ کچھ تو غلط ہونا چاہیے تھا۔جسے ٹھیک کرنے کے لیے وہ اپنی ڈیوٹی نبھاتے۔اور یہ خطرے کی گھنٹی بھی تھی کہ اگر اس طرح ہر کوئی اپنا سب کچھ ٹھیک لانے لگا تو وہ کریں گے کیا؟ آخر وہاں بیٹھے ہیں یا بٹھائے گئے ہیں توکچھ کرنے کے لیے۔اور جب کرنا ہی نہیں رہے گا تو نہ کرنا کہاں جائے گا۔

آخر وہ سب آپس میں سرجوڑ کر بیٹھ گئے اور آپس میں خیالات اور سر کی جوئیں شئیر کرنے کے بعد متفقہ بیان جاری کیاکہ ہم نے اپنا سب کچھ اس لیے ٹھیک رکھاہے کہ ہمارے ارادے ٹھیک نہیں ہیں ، عام لوگ اپنا سب کچھ اس طرح’’ٹھیک‘‘ نہیں رکھتے، ضرور اس ٹھیک میں کچھ نہ کچھ ناٹھیک ہے اور اس ’’ناٹھیک‘‘ کو ہمارے اندر سے نکالنے کے لیے زیرتفتیش کرکے قانون نافذ کیاجائے گا۔

حیران وپریشان تھے کہ اللہ مہربان ہوا اور ایک مرد مہربان نے ہماری رہنمائی کی جو شاید اسی لیے وہاں رکھا گیا تھا کہ یہ لوگ کوئی سفارش،کوئی درخواست یا قانون نہیں مانیں گے البتہ بزرگوں کا بے حد احترام کرتے ہیں چنانچہ ہم نے اسی وقت چند ’’تصاویر بزرگان‘‘ نکال کر بطور ہدیہ ان کے سامنے کیا اور ہمارا ’’سب کچھ ٹھیک‘‘ ایک دم’’ناٹھیک‘‘ میں بدل گیا۔شکر ہے اللہ کا کہ ابھی بزرگوں کا احترام باقی ہے، تصویروں کی حد تک سہی۔

ہم یاجوج ماجوج تو تھے نہیں جو دیواروں کو ’’زبان‘‘ سے چاٹنا شروع کردیتے اور زبان کے علاوہ ہمارے پاس اور تھا کیا کہ پاکستانی باشندوں کا کل اثاثہ،مال ومتاع اور تیر وتفنگ یہی ایک زبان ہی تو ہوتی ہے۔کہیں کہیں دیواریں عبور کرنے کی کوشش کی اور لنگڑے تیمور کی معلمہ، مکرمہ و محترمہ اس ’’چیونٹی‘‘کو یاد کیا جس نے لنگڑے تیمور کو سبق دے کر اسے سمرقند کے بازاروں میں بھیک مانگنے سے بچاکر بادشاہ بنایاتھا۔اور ہمیں تو بادشاہ بننے کی آرزو بھی نہ تھی کہ وہ اس شہر اور ملک میں پہلے ہی سے ’’سرپلس‘‘ جارہے تھے۔

یہاں پر ہمارے ہاتھوں کے سارے طوطے ،بٹیر، چیل کوے بلکہ بطخیں اور مرغابیاں تک اڑ گئیں کہ وہاں تک پہنچنے کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ’’لکشمی‘‘ تک پہنچنے کے لیے ’’لک‘‘ چاہیے۔’’ہک اوربک‘‘ تھے، سو وہ تو ہم پیدائشی ’’ہکے بکے‘‘ تھے، ہیںاور رہیں گے۔سو خیر سے بدھو گھر لوٹ آئے۔

تم شہر سمجھتے جس کو پوچھو وہاں کیاحالت ہے

ہم بھی تو وہاں سے’’لوٹے‘‘ ہیں بس شکر کہ’’لوٹ آئے ہیں‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔