پاکستان پر 2 سال میں 27 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واجب الادا، آئی ایم ایف

شہباز رانا / ارشاد انصاری  منگل 30 اپريل 2019
 آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع، معاہدہ 10 مئی کو طے پانے کا امکان ، پاکستان نے600ارب کے نئے ٹیکسزلگانے پرآمادگی ظاہرکردی۔ فوٹو: فائل

 آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع، معاہدہ 10 مئی کو طے پانے کا امکان ، پاکستان نے600ارب کے نئے ٹیکسزلگانے پرآمادگی ظاہرکردی۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان پر 2سال میں 27 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واجب الادا ہوجائے گا جب کہ قرض کا یہ حجم  پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں کا 27 فیصد ہے۔

حکومت اور کچھ  نجی سیکٹر کے ماہرین کے جائزوں کے مطابق جاری  کھاتوں کے خسارے کو پورا کرنے  کے لیے درکار رقم  کو شامل کرنے کے بعد پاکستان کو اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے اگلے دو برسوں میں 46 سے 50 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ 27 ارب ڈالر کے  بیرونی قرضوں کا ذکر  پیر کو جاری کردہ آئی ایم ایف کی نئی ریجنل آؤٹ لُک رپورٹ اپ  ڈیٹ میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان واحد علاقائی ملک  ہے جسے سب سے زیادہ غیرملکی قرضہ ادا کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق رواں برس جون تک قرض کا تناسب جی ڈی پی  کے 77 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ سابقہ دور حکومت  کے  اختتام پر یہ تناسب 72.5 فیصد تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب   سے یہ رپورٹ  اسی دن جاری کی گئی  ہے جس روز  پاکستان کے ساتھ  ممکنہ بیل آؤٹ پیکیج پر مذاکرات  شروع ہوئے ہیں۔

قبل ازیں گذشتہ برس نومبر میں بہت اہم معاملات پر اختلافات کے باعث مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔ تاہم اس بار حکام کو توقع ہے کہ  اختلافات دور کرلیے جائیں گے اور  6.5 ارب ڈالر قرض کے معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

پاکستان کو یہ قرض 3 سال میں ادا کرنا ہوگا۔ بیجنگ میں جمعے کو بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی سائیڈلائن پر  وزیراعظم پاکستان کی ملاقات  آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹائن لوگارڈ سے ہوئی  تھی۔

ایوان وزیراعظم سے جاری کردہ بیان کے مطابق  دونوں رہنماؤں نے  فنڈ پروگرام کی اہمیت  اور  معاہدے کی جانب پیش قدمی پر اتفاق کیا تھا۔ پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، پیرکو ہونے والے مذاکرات کے پہلے روزپاکستان نے آئی ایم ایف کو  600 ارب روپے سے زائدکے نئے ٹیکسزلگانے پرآمادگی ظاہرکردی۔

پاکستان نے ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبہ میں تجاویز تیارکرلی ہیں جبکہ آئی ایم ایف سے 3 سالہ پروگرام کے تحت ساڑھے 6 ارب ڈالرکے لگ بھگ قرضے کا معاہدہ 10مئی کوطے پانے کا امکان ہے، مذاکرات میں آئی ایم ایف جائزہ مشن کی سربراہی ارنستو ریگوکرہے ہیں جبکہ پاکستانی ٹیم کی قیادت سیکریٹری خزانہ نے کی، وفد نے پہلے روز وزارت خزانہ ، ایف بی آر اور وزارت توانائی کے حکام سے مذاکرات کیے۔

پاکستان نے 600ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کی یقین دہانی کرادی، آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ نئے بجٹ میں ایف بی آرکا ہدف 4500 ارب روپے سے زائد مقررکیا جائے گا، رواں سال ایف بی آر 4100 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرے گا، مذاکرات میںچیئرمین ایف بی آر اور ٹیکس حکام نے ٹیکس اصلاحات پر بھی آئی ایم ایف کو بریفنگ دی اورٹیکس کی چھوٹ محدود کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ مذاکرات میں رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے اقتصادی اعدادوشمار پر مشتمل مرتب کردہ ڈیٹا شیئرکیاگیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ آئندہ مالی سال 2019-20 کے وفاقی بجٹ کے لیے تیارکردہ تجاویز اور بجٹ اسٹریٹجی پیپراورمڈٹرم اکنامک فریم ورک بارے بھی تفصیلی تبادلہ ہوا ہے اور بجٹ اسٹریٹجی پیپر کے مجوزہ اہداف کو حتمی شکل دینے پرتبادلہ خیال ہواہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایے کے ساتھ مالیاتی خسارہ اور ادئیگیوںکے توازن سمیت دیگر اہداف پر بھی بات چیت ہورہی ہے او مالیاتی خسارہ رواں مالی سال کے آخر تک  7 فیصدکے لگ بھگ جبکہ پروگرام کے تحت اس میں بتدریج کمی لائی جائیگی اور 5.6  فیصد تک اگلے سال لایا جائے گا۔

آئی ایم ایف پاکستان کی ٹیکس آمدنی جی ڈی پی کے 13.2 فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے لیکن حکومت پاکستان نے 12.7 فیصد تک بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے، ذرائع کاکہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں ریونیو فریم ورک  کے بارے میں بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں چین سے لیے جانے والے قرضوں کے بارے میں آگاہی سے متعلق آئی ایم ایف کو آگاہی دینے میں بھی پیشرفت ہوئی ہے، قرضوں کی تفصیلات پاکستان کے مجموعی قرضوں میں ظاہرہے، وہی آئی ایم ایف کو دی جائے گی۔

آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان آمدن بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، تجارتی خسارے میں کمی ہو رہی ہے جبکہ درآمدات کو روکا جا رہا ہے، امید ہے رواں سال جاری کھاتوں کا خسارہ کم ہوگا، پاکستان نے ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبہ میں تجاویزتیارکرلی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔