مریض بھی روزہ رکھ سکتے ہیں!

جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ دار کے جسم میں دوسرے افراد کی نسبت قوت مدافعت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ دار کے جسم میں دوسرے افراد کی نسبت قوت مدافعت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ کی مسلمانوں پر بے پناہ عنایات ہیں۔ اللہ کی بے شمار اور اَن گنت نعمتوں میں رمضان المبارک کا مبارک مہینہ بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ’’تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘

رمضان المبارک کا مہینہ نیکیوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینے شیطان قید کر دیئے جاتے ہیں اور نیکیوں کا اجر 70 گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

روحانی بالیدگی کے ساتھ ساتھ رمضان جسمانی تطہیر اور پاکیزگی کا بھی مہینہ ہے۔ اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ رمضان المبارک میں اگر سحر اور افطار کے دوران کھانے پینے میں اعتدال کیا جائے تو بندہ خود بخود صحت مند اور توانا رہتا ہے۔ لیکن اگر سحری اور افطاری میں اعتدال اور میانہ روی کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو بہت سارے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

اکثر دیکھا گیا کہ افطاری کے دوران جھٹ پٹ ہر چیز ہڑپ کرنے سے بہت سے لوگ تبخیر معدہ اور پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ مرغن کھانے، تلی ہوئی اشیاء اور کولڈ ڈرنکس پینے سے رمضان میں روزے رکھنے کے باوجود وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں سحری اور افطاری میں متوازن غذا کا شامل ہونا ضروری ہے۔ سحری اور افطاری میں پھل، سبزیاں، دودھ، گوشت مناسب مقدار میں شامل ہونا چاہیے۔

بعض لوگ سحری کے لیے اٹھتے ہی نہیں۔ روزہ کے لیے سحری سنت ہے۔ سحری کے بغیر روزہ رکھنا روزہ کی افادیت کو گھٹا دیتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے زور دے کر کہا کہ سحری لازمی کیا کرو۔ سحری نہ کھانے سے بندہ جسمانی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس کا اثر جسم کے سارے افعال پر بھی پڑتا ہے۔ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنے والے حضرات ساری کمی افطاری کے وقت پوری کرتے ہیں جو کچھ سامنے آئے اسے ہڑپ کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ اتنا کچھ کھا لیتے ہیں کہ نماز پڑھنے کی بھی طاقت نہیں رہتی۔ سارا وقت ڈکارتے رہتے ہیں۔ گیس اور تبخیر معدہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ بندہ اہتمام سے سحری کرے۔ سحری میں مرغن غذا کھانے سے پرہیز کریں۔ دہی اور لسی کا استعمال بھی مفید ہے۔ سحری میں سلاد اور سبزی کا استعمال بھی صحت کے لیے بہتر ہے۔

سحری میں کسی قسم کے کولڈ ڈرنکس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ کافی لینے سے بھی معدہ میں تیزابیت پیدا ہو سکتی ہے۔ مزید براں سحری کے دوران زیادہ نمکین چیزوں مثلاً اچار اور مصالحہ دار اشیاء سے پرہیز کرنا چاہیے۔ سحری کے لیے اٹھتے ہی دو تین گلاس پانی پی لیں اور اس کے بعد کھانا کھائیں۔ سحری کرتے ہی فوراً سو جانا مضر صحت ہے۔ سحری کے بعد کچھ دیر انتظار کریں۔ ہلکی سے واک کر لیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ نماز کے لیے مسجد جائیں اور اس کے بعد آرام کر سکتے ہیں۔

افطاری بھی اعتدال کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ افطاری میں خوامخواہ کے نام و نہاد انرجی ڈرنکس سے پرہیز کریں۔ اس کی بجائے گھر میں بنائے ہوئے شکر شربت، شربت روح افزا وغیرہ، سکنجین، شربت تخم ملنگاں، کچی لسی کا استعمال کریں۔ بہت زیادہ پکوڑے اور سموسے کھانے سے معدے پر اضافی بوجھ پڑ جاتا ہے۔ بھوک مر جاتی ہے اور قبض کی جاں لیوا تکلیف سے پالا پڑ جاتا ہے۔

اس لیے افطاری میں مرغن غذاؤں، کولڈ ڈرنکس، زیادہ نمکین چیزوں سے پرہیز کریں۔ نمک کا زیادہ استعمال عمر گھٹاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر اور بہت سے دوسرے امراض کا باعث بنتا ہے۔ آج کل افطاریوں میں اتنا کچھ ہوتا ہے کہ بندہ کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کھائے اور کیا چھوڑے۔ کھاتے ہوئے اعتدال کو پیش نظر رکھیں۔ کھجور سے افطاری سنت بھی ہے اور جسم کے لیے فائدہ مند بھی۔ اس سے جسم کو قوت ملتی ہے۔

ہڈیوں کو مضبوط کرتی ہے۔ دو تین کھجوروں کے ساتھ شربت تخم ملنگاں یا فالسے کا شربت جسم کو فوری توانائی مہیا کرتا ہے۔ افطاری میں پھلوں اور ان کے جوس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ انرجی اور کولا ڈرنکس سے مکمل طور پر پرہیز کریں۔ مرغن غذاؤں کے ساتھ بہت زیادہ میٹھی چیزوں مثلاً کیک، پیسٹریوں، مٹھائیوں اور حلوہ جات کا کم سے کم استعمال کریں۔

رمضان المبارک کے آغاز سے مختلف قسم کے مریض پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہم روزہ رکھ سکتے ہیں۔ روزے سے ہماری بیماری تو متاثر نہیں ہوگی؟ بہت سی میڈیکل تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ روزہ روح کے ساتھ جسم کے لیے بھی ایک زبردست ریفریشر کورس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے جسم کو آرام اور سکون ملتا ہے۔ جسم کے تمام اعضاء، سسٹم خاص کر معدہ، جگر اور خون کی نالیاں بے ہنگم کھانوں کے بوجھ سے کچھ دیر کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے ایک پادری کا کہنا ہے کہ مجھے اسلام میں رمضان المبارک کے روزوں کے فلسفے نے بہت متاثر کیا۔

بہت سے لوگ اس خوف کے پیش نظر روزہ نہیں رکھتے کہ روزہ کے سبب یا روزہ کی حالت میں کہیں مرض کا غلبہ یا پیچیدگی پیدا نہ ہو جائے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ دار کے جسم میں دوسرے افراد کی نسبت قوت مدافعت(Immunity) کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور پھر دوران روزہ اندرونی اعضاء کی کارکردگی میں کمی واقع ہونے کے باعث انہیں آرام مل جاتا ہے اور بعد از آرام یہ اعضاء تازہ دم اور مستعد ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان اعضاء کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا عام سبب یہ ہے کہ اعضائے رئیسہ (Vital Organs) کو تقویت ملتی ہے۔ روزے کی اس مسلمہ افادیت کو غیر مسلم اطباء نے بھی تسلیم کیا ہے۔ بلکہ اہل مغرب مختلف امراض کے علاج میں روزہ رکھوا کر کامیاب علاج کرنے لگے ہیں۔

ڈاکٹرڈی جیت(Dr. D. Jeet) کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنا امراض کی روک تھام کے لیے تقدم بالحفظ (Prevention) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر جوزف (Yossaf) کا کہنا ہے کہ روزہ سے ظاہر و باطن کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں یعنی روزہ جسمانی و روحانی خرابیوں کا دافع ہے۔ روزہ بسیار خوری (Over Eating) سے بچاتا ہے جس سے معدہ و جگر کا عمل درست ہوتا ہے۔

مریضوں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں عام بیماریوں، مثلاً کھانسی، نزلہ، زکام، خارش، ڈائریا، پیٹ درد، جسم درد، جوڑوں کے درد، کبھی کبھار بلڈ پریشر، چکر، متلی اور قے وغیرہ کی علامات اور بیماریوں کے مریض شامل ہیں۔ ایسے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں۔ انھیںکوئی مسئلہ نہ ہوگا۔ روزہ رکھنے کے ساتھ انھیں اپنی دوا کی مقدار اور خوراک کا تعین اس طریقے سے کرنا ہوگا کہ دوائی کی پہلی خوراک افطاری کے فوراً بعد لیں۔ دوسری خوراک تراویح نماز پڑھنے کے بعد رات سونے سے پہلے لے لیں اور تیسری خوراک صبح سحری کے بعد لے لیں۔ ایسے مریضوں کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے ان کے امراض کی علامات میں کمی ہوگی۔

دوسری قسم میں وہ مریض شامل ہیں۔ جو پرانی بیماریوں مثلاً ذیابیطس، بلڈپریشر، دل کی تکلیف، گردوں کی خرابی، السر اور دماغی امراض وغیرہ میں مبتلا ہیں۔ ایسے مریض بھی روزہ رکھ سکتے ہیں۔ شوگر کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے طریقے سے سحری کریں۔ سحری میں کھانے کے علاوہ پانی اور شربت وغیرہ کا ٹھیک ٹھاک استعمال کریں۔ کیونکہ روزہ رکھنے سے شوگر میں کمی اور جسم میں پانی کی کمی درپیش ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاطر خواہ پانی کا ذخیرہ پیٹ میں رکھا جائے۔ شوگر کے مریض ڈاکٹر کے مشورہ سے اپنی دوا کی مقدار متعین کر سکتے ہیں۔ جو مریض دوا دن میں تین مرتبہ لیتے ہیں وہ دوا کو افطاری کے فوراً بعد، رات سوتے وقت اور سحری کے وقت لے سکتے ہیں۔

ذیابیطس شکری کے وہ مریض جو علاج کے لیے انسولین (Insuline) استعمال کرتے ہیں انہیں گلوکوز کنٹرول رکھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ انسولین استعمال کرنے والے سحری کے وقت انسولین کی مقدار کم کر کے خون میں گلوکوز کی مقدار زیادہ کردینے کا باعث بھی بن سکتی ہے اور پھر افطاری کے وقت غیر محتاط کھانا (بسیار خوری) بھی خون بھی گلوکوز کی زیادتی کا باعث بنتا ہے۔

چنانچہ رمضان المبارک کی آمد مریض اور معالج دونوں کے لیے خون میں گلوکوز کی کمی سے خوف ہوتی ہے لیکن طب جدید کا نظریہ یہ ہے کہ خائف ہرگز نہ ہوں کیونکہ روزے مریض اور معالج کے لیے مشکلات یا کسی قسم کی دشواری پیدا نہیں کرتے بلکہ روزہ دار مریض کا شوگر لیول نارمل ہوجاتا ہے جبکہ ایسے اشخاص جو روزہ دار نہ ہوں ان کا شوگر لیول اُتار چڑھاؤ کا شکار رہتا ہے۔ بڑی عمر کے لوگ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہم تراویح پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں۔ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض بیٹھ کر تراویح کی نماز ادا کر سکتے ہیں۔

تیسری قسم میں وہ مریض شامل ہیں جو خطرناک جاں لیوا موذی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں کینسر، شوگر، فالج، گردوں کی ناکامی وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے مریضوں کے لیے ویسے بھی روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ روزہ نہ رکھیں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانے کے لیے یا کسی غریب کی مدد کرنے کے واسطے یہ روزہ کا فدیہ دے سکتے ہیں۔

روحانی اور جسمانی فائدوں کے علاوہ ذہنی و نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے بھی روزے رکھنا بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے سے آدمی برے خیالات سے دُور رہتا ہے۔ ذہن پراگندہ نہیں ہوتا۔ فکر، ڈیپریشن اور خوامخواہ کی پریشانیوں سے چھٹکارا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ روزہ تزکیۃ النفس بھی کرتا ہے۔ ماہ صیام میں نماز تراویح میں خشوع و خضوع اور دھیان سے کلام اللہ سننے سے ذہنی سکون اور اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔

تہجد کے لیے یا پھر سحری کرنے کی غرض سے جب آدمی بیدار ہوتا ہے تو اس وقت چونکہ وہ اپنی نیند پوری کر چکا ہوتا ہے اور تازہ دم بیدار ہوتا ہے اور پھر اس وقت آکسیجن (Oxygen) وافر مقدار میں میسر ہوتی ہے جو ذہن کو تازگی اور تقویت دیتی ہے اور پھر سحری کھا لینے کے بعد جب پورے انہماک سے نماز، تلاوت یا تسبیحات میں لگ جائے تو اس وقت اسے عبادت میں لذت کا احساس ہوگا اور مذہب میں لگاؤ بڑھتا جائے گا۔

اس کا نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ جب وہ بیدار ہوا تو اس وقت اس کا دماغ ہر قسم کے دباؤ یا بوجھ سے آزاد تھا اور پھر اسی تازگی کی حالت میں وہ عبادت میں مشغول ہو گیا اور اسے غیر ضروری باتوں پر سوچنے کا موقع ہی نہ ملا اس طرح اس کی دماغی کیفیت معتدل ہوتی چلی جاتی ہے اور مختلف قسم کی ذہنی اور نفسیاتی الجھنیں اس کو پریشان نہیں کرتیں۔ اگر آپ کسی قسم کی نفسیاتی اور ذہنی الجھن کا شکار ہیں تو ادب و آداب کی رعایت رکھتے ہوئے روزہ رکھیں۔ پنچ وقتہ نماز پڑھیں۔ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز تراویح ادا کریں۔ ذہنی و ابدی سکون کے لیے اللہ کا ذکر کریں اور قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔