کم عمری کی شادی؟

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 4 مئ 2019
کیا کم عمر میں شادی درست اقدام ہے؟ (فوٹو:ـ انٹرنیٹ)

کیا کم عمر میں شادی درست اقدام ہے؟ (فوٹو:ـ انٹرنیٹ)

مغرب زدہ معاشرے میں ایک سوال جو آج کل بہت اٹھتا ہے وہ اسلام میں کم عمری کی شادی کی اجازت ہے۔ دیکھا دیکھی ہمارے اپنے ٹی وی چینلز اور صحافیوں نے بھی اس پر بولنا شروع کردیا ہے کہ اسلام اتنی چھوٹی عمر میں شادی کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ یہ تو معصوم بچیوں پر سراسر ظلم ہے۔

اس سوال کا جواب تو آپ خود ہی دے سکتے ہیں، صرف تھوڑے سے کامن سینس کی ضرورت ہے۔ اجازت اور حکم میں بڑا فرق ہے۔

اسلام بلوغت کے بعد شادی کی اجازت دیتا ہے، والدین کی رضامندی کے بعد۔ جسے آپ امریکا میں پیرینٹل کونسینٹ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ملک و معاشرے کی روایات بھی تو ہیں۔ اگر بات صرف اتنی ہے کہ کم عمر میں شادی کی اجازت دینی ہی نہیں چاہیے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ تھوڑا سا تاریخ کا، اور تھوڑا امریکا کے قانون کا مطالعہ کرلیں۔

اسلام سے پہلے رومن ایمپائر میں شادی کے لیے قانونی عمر دس سے چودہ سال تھی اور قانون تو تھا ہی اشرافیہ کے لیے۔ باندی غلاموں یا نچلے طبقے کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ چوتھی صدی عیسوی تک چرچ میں قانونی عمر بارہ سال تک تھی۔ سولہویں صدی کے آغاز میں یورپین ممالک میں یہ عمر تیرہ سے سولہ سال کے درمیان تھی اور امریکا میں پانچ سے دس سال کے درمیان۔ تاریخ میں 1689 میں ورجینیا کی ریاست میں دس سالہ بیویوں کے کئی حوالہ جات موجود ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں انگلستان میں قانونی عمر آٹھ سے دس سال تھی، اور پندرھویں صدی تک امریکن کالونیوں میں بھی یہی رواج تھا۔ شیکسپیئر کی جولیٹ بھی تو تیرہ سال کی تھی۔

جی، آپ کی بات بجا ہے۔ میں ماضی کی بات نہیں کرتا، میں تو آج کل کے دور کی بات کرتا ہوں۔

آج کل کے ماڈرن، پڑھے لکھے، تہذیب یافتہ اور حقوق نسواں کے علمبردار دور میں بھی کیا یہ ممکن ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر میں بچیوں کی شادی کردی جائے؟

امریکا میں شادی کی اوسط عمر خواتین کے لیے تیس سال یا اس سے کچھ زائد ہے۔ یہ اٹھارہ کے آس پاس بیس اکیس سال کی عمر کچھ مناسب نہیں لگتی۔

عبداللہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہمیں یہ بتائیں ’’کاغذ کے ایک ٹکڑے‘‘ سے آپ کو پریشانی کیا ہے؟

بالکل نہیں! ہمیں تو پریشانی لڑکیوں کی صحت کی ہے کہ وہ اس کم عمر میں جنسی معاملات کو کیسے نبھائیں گی اور حمل کے مراحل کیسے طے کریں گی۔

عبداللہ نے شوخ آنکھوں کے ساتھ اپنی بات جاری رکھی۔

خدایا! آپ جیسے معصوم لوگ تو ملکوں کا سرمایہ ہوتے ہیں، کیا آپ اخبار نہیں پڑھتے؟ ٹی وی، ریڈیو بھی نہیں؟

جناب والا 1960 تک ڈیلاوئیر میں سات سال کی عمر کی بچی سے جنسی تعلق جائز تھا، اگر ماں باپ کی مرضی سے شادی ہوئی ہو۔

سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر آج بھی امریکا کی تمام ریاستوں میں شادی کی قانونی عمر سولہ سال ہے اٹھارہ نہیں۔ میساچوسیٹس کی ریاست میں بارہ سال ہے۔ انڈیانا، ہوائی اور جارجیا میں پندرہ اور پینسلوانیا اور نیویارک میں چودہ۔

کیلیفورنیا میں کم از کم عمر کی تو کوئی قید ہی نہیں ہے۔ اگر ماں باپ کی مرضی شامل ہو تو کسی بھی عمر میں شادی جائز ہے۔ کتنی ہی ایسی ریاستیں ہیں جو عمر کی حد میں مزید کمی کردیتی ہیں اگر لڑکی حاملہ ہو تو۔

اور جہاں تک جنسی معاملات یا حمل کی مشکلات کا سوال ہے تو امریکا میں قریباً نصف کے قریب ہائی اسکول میں پہنچنے والے ان مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ سال میں کوئی دس لاکھ بچیاں تیرہ سے انیس سال کی عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں، یعنی ہر ایک منٹ میں دو۔ امریکی حکومت سال کا چالیس بلین ڈالر صرف انہی کی دیکھ بھال، بچاؤ اور مشورے اور تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ حاملہ ہونے والی ان لڑکیوں سے ان کے ہونے والے بچوں کے باپ شادیاں نہیں کرتے۔ ہر دس میں سے آٹھ لڑکے بغیر شادی کے بھاگ جاتے ہیں۔ 89 فیصد یہ لڑکیاں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتیں۔

یہ بچیاں امریکا میں ہونے والی پیدائشوں کا اکیس فیصد بنتی ہیں۔ 1975 تک یہ باون فیصد تھیں۔ آج بھی امریکا میں اکتالیس فیصد بچے شادی سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔

آپ فرما رہے تھے کہ اوسطً عمر تیس سال ہے شادی کی۔

ارے بھائی امریکا کے اپنے صدر گرو کلیولینڈ نے 2 جون 1886 کو وائٹ ہاؤس کے بلیو روم میں فرانسس فولسوم سے شادی کی۔ جب خاتونِ اوّل کی عمر صرف اکیس سال تھی تو آپ کی اوسط سے تو وہ بھی قابل تعزیر قرار پائے۔

آپ لوگوں کی حقائق کے برخلاف انہی تقریروں کی وجہ سے پاکستان، انڈیا اور ایسے ہی کئی ممالک میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال کردی گئی ہے، مگر آپ کے یہاں نہیں ہے اور مسلمانوں کا ہی رونا کیوں؟ اندورا، کولمبیا اور پیراگوئے میں آج تک یہ عمر چودہ سال ہے، مالی اور انگولا میں پندرہ سال، میکسیکو، اسکاٹ لینڈ، سیریا لیون، گیمبیا، انگلینڈ اور لائبیریا میں سولہ سال اور ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔

کتنے ہی ڈیوک آف انگلینڈ ہیں جن کی شادیاں سولہ سال کیا چودہ سال یا اس سے بھی کم عمر میں ہوئیں۔

بحث اس بات کی نہیں کہ کون کیا کررہا ہے، میں تو صرف اتنا عرض کر رہا ہوں کہ ہر معاشرے، ہر ملک، ہر طبقہ، ہر تاریخ، ہر جغرافیہ کے اپنے اپنے اطوار ہوتے ہیں اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی کسی مفلوک الحال بچی کے ساتھ ظلم کررہا ہے تو وہ بلاشبہ قابل تعزیر ہے، وہ چاہے پاکستان میں ہو یا امریکا میں۔

آئیے مل کر ارلی ٹین ایج پریگننسی پر فون کی کوئی ایپ بناتے ہیں کہ بے چاری بچیوں کا بھلا ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔