60 کسان انتخابات میں حصہ لیں گے
سیاسی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی آنکھ بند کر کے غلامی کرتا آ رہا ہے
بھارتی جمہوریت میں لاکھ خامیاں سہی لیکن ایک خوبی ایسی ہے جو بھارت کے جمہوری کردار کو مستقبل میں تابناک بنا سکتی ہے، وہ خوبی ہے عام غریب لوگوں کو ایوان اقتدار میں پہنچانا، ویسے تو بھارت کے کئی وزرائے اعظم کا تعلق نچلے طبقات سے ہے لیکن بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کا تعلق نچلے سے بھی نچلے طبقے سے ہے، اگرچہ نریندر مودی وزارت عظمیٰ کی نظریاتی ذمے داریاں نبھا نہیں سکے لیکن بھارت میں اس طرز جمہوریت کی وجہ جاگیردار طبقہ سیاسی منظر سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گیا ۔
بھارت کا یہ طرز حکومت نیا نہیں بلکہ 71 سالہ پرانا ہے۔ لیکن اب اس میں وسعت آتی جا رہی ہے۔ ایک تازہ خبر کے مطابق بھارت کے حالیہ انتخابات میں 60 کسان بھی حصہ لے رہے ہیں، یہ بھارت کی ایک ارب کے لگ بھگ آبادی میں بہت کم تعداد ہے لیکن یہ قدم بھارتی جمہوریت میں غریب عوام کی شرکت کے حوالے سے ایک بڑا اور معنی خیز قدم ہے ۔اس کے برخلاف ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ جس جاگیردارانہ نظام کو بھارت میں 70 سال پہلے ختم کر دیا تھا، وہ نظام نہ صرف ہماری سیاست میں غیر معمولی طور پر فعال ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ دنیا بھر کا دھتکارا ہوا نظام پاکستان میں سیاست کا بنیادی کردار بنا ہوا ہے اور سیاست کی جتنی گندگیاں ہیں وہ اس نظام کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ وڈیرہ شاہی اتنی بالاتر اور مالدار ہے کہ وہ سیاست کا رخ جس طرف پھیرنا چاہے پھیر سکتی ہے۔
اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ نظام خاندانی ہے ۔ کوئی اقتدار کے قابل ہو یا نہ ہو یہ نظام ولی عہدوں کو حکمران بنا دیتا ہے۔ اس نظام میں بادشاہی نظام کی طرح ولی عہدی کا رواج ہے اور ولی عہد خواہ کتنا بڑا گدھا کیوں نہ ہو حکمران بننے کا اہل ہوتا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت میں بے شمار خرابیاں ہیں لیکن ایک خوبی ایسی ہے جو بھارت کے جمہوری نظام کا مستقبل درخشاں کرسکتی ہے اور وہ خوبی نچلے طبقات کا وزارت عظمیٰ تک پہنچنا ہے۔
کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں غریب طبقات مزدوروں کسانوں کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے جو کونسلر تک رسائی سے محروم ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری مڈل کلاس کے ضمیر فروش لوگ اس نظام کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے قانون ساز اداروں میں مزدوروں کسانوں کی رسائی کا خواب تک نہیں دیکھا جاسکتا۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور صنعتکاروں نے ہماری جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے، آج بھی وڈیرے اور جاگیردار لاکھوں ایکڑ اراضی کے مالک ہیں اور زرعی معیشت میں بادشاہوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا تقدس مآب طبقہ جاگیرداروں کا غلام بنا ہوا ہے اور سیاسی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی آنکھ بند کر کے غلامی کرتا آ رہا ہے ۔
پاکستان کی دیہی معیشت میں کسانوں کی تعداد دیہی آبادی کا 60 فیصد ہے اور شرمناک بات یہ ہے کہ اس 60 فیصد حصے کو قانون ساز اداروں میں کوئی نمایندگی حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں جب تک سیاست میں بایاں بازو فعال تھا کسانوں کے حقوق کی جدوجہد جاری تھی لیکن جب سے پاکستانی سیاست میں بایاں بازو عضو معطل بنا ہوا ہے کسانوں کے حقوق کی بات کرنے والا کوئی نہیں البتہ کسانوں کی پروفیشنل لیڈرشپ سو دو سو کسانوں کو سڑکوں پر لا کر کھاد، بیج کی قیمتوں میں کمی کے مطالبے پیش کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتی ہے اور کسانوں کی قسمت بدلنے کا مطالبہ زرعی اصلاحاتی پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں بے شمار مال دار این جی اوز موجود ہیں جو ہزاروں کسانوں کو اکٹھا کر کے محض ثقافتی شو پیش کرتی ہیں، شاید اس سے زیادہ کام کی این جی اوز کو اجازت ہی نہیں۔ لیکن ان ہزاروں این جی اوز میں کچھ این جی اوز ایسی ہیں جن کی قیادت ٹریڈ یونین اور بائیں بازو کی سیاست سے ان ٹچ رہی ہیں اگر یہ حضرات چاہیں تو کوئی رسکی کام نہیں صرف کسان کانفرنسیں کروا سکتی ہیں۔ کسان کانفرنسوں کے انعقاد سے کسانوں میں طبقاتی شعور پیدا ہو سکتا ہے اور کسان اپنے حقوق سے واقف ہوسکتا ہے۔ ہمارے این جی او کے ایک کرم فرما نے کہا تھا اگر پاکستان کے دیہی علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو آگے لایا جائے تو ہماری سیاست میں بھارت کی طرح ایک مثبت تبدیلی آ سکتی ہے، یہ خیال بہت اچھا تھا اور ہم اس حوالے سے اس غلط فہمی کا شکار بھی رہے کہ شاید یہ بھائی اس حوالے سے کچھ پیش قدمی بھی کریں گے۔
لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ یہ بڑی مثبت بات ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں بائیں بازو کی پارٹیاں موجود ہیں جن کا ایجنڈا انقلاب ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہا جائے کہ انقلابی کام ایک دوسرے کو کامریڈ کہنے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سوشل ازم کا نام بائیں بازو کی لغت سے بھی نکل گیا ہے لیکن طبقاتی استحصال میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسی رفتار سے عوام میں طبقاتی بیداری بھی بڑھ رہی ہے۔ فرانس میں پیلی جیکٹ کی تحریک ایک سال سے زیادہ عرصے سے چل رہی ہے، یہ تحریک مہنگائی کے حوالے سے شروع ہوئی تھی لیکن اب وہ حکمرانوں کی برطرفی کے مطالبے تک آ گئی ہے۔ اس حوالے سے مثبت اور امید افزا بات یہ ہے کہ اس تحریک میں فرانس کے بائیں بازو کی جماعتیں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ انقلابی دانشوروں نے کہا ہے کہ تحریکوں کے دوران جو اتحاد بنتے ہیں وہ بڑے فعال اور کامیاب ہوتے ہیں، پاکستان کے کامریڈ اگر صرف کسان کانفرنسیں ہی کریں تو یہ انقلاب کے لیے ان کا بڑا کنٹری بیوشن ہو گا۔