پاکستان کے کچھ ایسے ٹی وی ڈرامے جنہوں نے کامیابی کے نئے سنگ میل طے کیے

 اتوار 12 مئ 2019
پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ فوٹو: فائل

وارث

جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرتے اس ڈرامے کے مصنف معروف شاعر امجد اسلام امجد تھے۔ جس وقت یہ ڈراما نشر ہوتا تھا تو ملک بھر میں ہُو کا عالم ہوجاتا تھا۔ جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی اور بااثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتے اس ڈرامے نے فقید المثال کامیابی حاصل کی۔ ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت دیتے اس ڈرامے میں چوہدری حشمت کا مرکزی کردار اداکار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا، جب کہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر فن کاروں کی جان دار اداکاری نے بھی اس ڈرامے کی کام یابی میں اہم کردار ادا کیا۔

خدا کی بستی

شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے حالات زندگی کے موضوع پر بننے والے اس ڈرامے ’خدا کی بستی‘ نے پوری دنیا میں لاکھوں ناظرین کو اپنا گرویدہ کیے رکھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد ایک غریب بستی میں آباد ہونے والے خاندان کے مسائل کو بیان کیا گیا کہ انہیں کس طرح کے معاشرتی، معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کم زوروں کی بے بسی، طاقت وروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکے داروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر استحصالی کردار موجود تھا۔ یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔ اس کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی ’خدا کی بستی‘ کے نشر ہونے کے اوقات کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔

اندھیرا اجالا

ایڈونچر پسند ناظرین آج تک پی ٹی وی پر نشر ہونے والے جرائم کی تحقیقات پر مبنی ڈرامے ‘اندھیرا اجالا’ کو نہیں بھولے۔ اسے کے عشرے میں بننے والے اس ڈرامے کو پاکستان میں جرائم کے خلاف پولیس کی مثبت کاوشوں کے اظہار کا پہلا ڈراما بھی کہا جا سکتا ہے۔ قوی خان نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی شکل میں مرکزی کردار ادا کیا، اور جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ نے اپنے جان دار کرداروں سے بھی اس ڈرامے کو لازوال بنا دیا۔ واضح رہے کہ آج کے مشہور اداکار فیصل قریشی نے بھی اس ڈرامے میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا تھا۔

دھواں

اس ڈرامے کو پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے ایکشن ڈرامے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ فلم ’مالک ‘ کے ہدایت کار عاشر عظیم کے قلم سے تحریر ہونے والے اس ڈرامے نے کام یابی کے کئی مدارج طے کیے۔ عاشر عظیم نے اس میں ایک پولیس افسر اور خفیہ ایجنٹ کا مرکزی کردار ادا کیا، جب کہ اداکار نبیل، نیئر اعجاز اور نازلی نصر کی جان دار اداکاری نے اس ڈرامے میں حقیقت کے رنگ بھر دیے تھے۔ اپنے وقت کے معروف ہدایت کار سجاد احمد کے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں اور محکمۂ پولیس کی کم زوریوں کو بہت خوب صورتی سے عکس بند کیا گیا تھا۔ المیہ اختتام پر ختم ہونے والے اس ڈرامے کو آج بھی کلاسک ڈراموں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔

آنگن ٹیڑھا

مزاح اور حاضر جوابی پر مبنی ڈائیلاگ سے بھرپور یہ ڈراما انور مقصود کے قلم سے رقم ہوا۔ اداکارہ بشری انصاری، اداکار سلیم ناصر، شکیل اور دردانہ بٹ کی بے مثال اداکاری کے باعث یہ ڈراما آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ اس ڈرامے کی ہر قسط میں معاشرتی اور سماجی مسائل کو ایسے پُرمزاح انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ کسی کو گراں بھی نہیں گزرتا اور سماجی شعور بھی پیدا ہوتا۔ یہ ڈراما اب تک متعدد بار دوبارہ نشر ہوچکا ہے اور ہر نسل اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

جانگلوس

وسطی پنجاب کے پس منظر میں بننے والے اس ڈرامے کو کون بھول سکتا ہے، جیل سے فرار ہونے والے دو قیدیوں لالی اور رحیم داد کے گرد گھومتے اس ڈرامے کا اسکرپٹ مشہور ادیب شوکت صدیقی کے ناول جانگلوس سے بنایا گیا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے 1989 میں نشر ہونے والے اس ڈرامے نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ شبیر جان اور ایم وارثی نے قیدیوں کا مرکزی کردار اور شبیر جان قیدیوں کا مرکزی کردار ادا کیا۔ جب کہ شگفتہ اعجاز، سلیم ناصر، ظہور احمد، اور دیگر اداکاروں نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ بااختیار طبقے کے تاریک چہرے سے پردہ اٹھاتے والے ڈرامے ’جانگلوس‘ کو ارباب اختیار کے حکم پر بند کردیا گیا تھا۔

تنہائیاں

شہناز شیخ، آصف رضا میر، بدر خلیل، بہروزسبزواری اور مرینہ خان جیسے فن کاروں سے سجے اس ڈرامے کو بھی فقیدالمثال کام یابی ملی۔ حسینہ معین کے لکھے گئے اسکرپٹ اور معروف ہدایت کار شہزاد خلیل کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے کی کہانی دو بہنوں کے گرد گھومتی ہے جن کے والدین ایک حادثے میں مر چکے ہیں اور وہ اپنی خالہ کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے اور منزل کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے ان کا واسطہ کئی دل چسپ کرداروں سے پڑتا ہے اور یہ سفر دیکھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔

آنچ

گھریلو مسائل بننے والے اس ڈرامے نے اداکار شفیع محمد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اپنے وقتوں میں یہ ڈرامہ خواتین میں بہت زیادہ مقبول تھا۔ اس ڈرامے کی کہانی ایک ایسے ادھیڑ عمر شخص کے گرد گھومتی ہے جو پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرلیتا ہے۔ پہلی بیوی کے بچوں اور سوتیلی ماں کے درمیان ہونے والی کش مکش نے خواتین کے دلوں گھر کرلیا۔ یہ ڈراما بھی اپنے دور میں انتہائی کام یاب رہا اور اس کے نشر ہونے کے وقت سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا تھا۔ ناہید سلطانہ اختر کے ایک ناول کے خیال پر مبنی اس ڈرامے کے ہدایت کار طارق جمیل تھے، اور مرکزی کردار شفیع محمد اور شگفتہ اعجاز نے ادا کیے ۔

ہوائیں

ہوائیں پی ٹی وی کا وہ ڈراما ہے جو آج بھی ان لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے جنھوں نے اسے دیکھا تھا۔ حیدر امام رضوی کی ہدایات اور فرزانہ ندیم سید کی تحریر سے سجے اس ڈرامے میں محمود علی، فرید نواز بلوچ، غزالہ کیفی، قیصر خان نظامانی، کومل رضوی، قاضی واجد، ہما نواب اور عبداللہ کادوانی جیسے اداکاروں نے کام کیا مگر جو شخص لوگوں کے ذہنوں پر چھایا وہ طلعت حسین تھے۔ یہ ڈرامہ ایک خاندان کی مشکلات کے گرد گھومتا ہے جس کا سربراہ قتل کے جعلی الزام میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اس الزام کو ختم کرنے کے لیے اس کی کوششیں اور جدوجہد دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیتی ہیں۔

شمع

یہ ڈراما اگرچہ بلیک اینڈ وائٹ تھا اس کے باوجود یہ نشر ہوتے ہی لوگوں کے دلوں کو بھا گیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے اے آر خاتون کے ناول کی بنیاد پر اسے ڈرامائی شکل دی۔ ہدایت کار قاسم جلالی نے اس ڈرامے کو حقیقی زندگی کے اتنے قریب کردیا کہ اسے دیکھنے والوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے گھر کی کہانی ٹی وی پر بیان کی جا رہی ہے۔ جاوید شیخ، قربان جیلانی اور عشرت حسین جان دار اداکاری نے اسے مقبول ترین ڈراموں کی صف میں کھڑا کردیا۔

ان کہی

1982 میں نشر ہونے والا ڈراما ’ان کہی‘ پاکستان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے، اس ڈرامے میں جاوید شیخ، سلیم ناصر، شہناز شیخ، شکیل، جمشید انصاری اور بہروزسبزواری کی لازوال اداکاری اور دلوں میں گھر کر جانے والے ڈائیلاگز آج تک لوگوں کو یاد ہیں۔ حسینہ معین کے قلم سے تحریر ہونے والے اس ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ اس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن پر حسینہ معین اور شہناز شیخ کا طوطی بولتا تھا اور اس ڈرامے میں بھی ان کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ خاص طور پر شہناز شیخ کی اوٹ پٹانگ حرکتیں ناظرین کے دلوں میں ایسی بسیں کہ آج تک وہی موجود ہیں جب کہ اسی ڈرامے کی تھیم پر بھارت میں کئی فلمیں بھی تیار کی گئیں۔

دھوپ کنارے

یہ ڈراما بھی حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہ کار تھا، ہدایات کارہ ساحرہ کاظمی کی ہدایت میں بننے والے اس ڈرامے کی کہانی ڈاکٹروں کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں۔ راحت کاظمی اور شوخ و چنچل مرینہ خان کے گرد گھومتا یہ ڈرامہ پی ٹی وی کی تاریخ کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔

دشت

اس ڈرامے کی عکس بندی بلوچستان کے علاقے دشت میں ہوئی۔ یہ ڈراما دو مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے جوڑے کے گرد گھومتا ہے جو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو کر شادی کر لیتے ہیں اور یہ چیز دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح یہ ڈرامہ دل چسپ انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ اداکار عابد علی نے اس کی ہدایات دیں اور عتیقہ اوڈھو، نعمان اعجاز اور اسد سمیت دیگر نے اس میں اپنی زندگی کے بہترین کردار ادا کیے۔

عروسہ

فاطمہ ثریا بجیا بلاشبہہ پاکستان کے بہترین ڈرامانگاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے ڈراموں میں شادی بیاہ کی رسومات پیش کرنے کا رجحان متعارف کروایا، بالخصوص ان کے ڈراموں میں مہندی کی تقاریب کو جس انداز سے پیش کیا گیا وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ شادی بیاہ کے گیت آج بھی پاکستانی ڈراموں کی شان بڑھاتے ہیں جنہیں سب سے پہلے فاطمہ ثریا بجیا نے چھوٹے پردے پر پیش کیا تھا۔ عروسہ ڈرامے سے مشی خان اور عدنان صدیقی جیسے باصلاحیت اداکاروں کے کریئر کی ابتدا ہوئی۔

انا

قاسم جیلانی کے زیرہدایت 1982میں بننے والے اس ڈرامے سے اظہار قاضی اور مہرین الہٰی جیسے اداکاروں نے چھوٹی اسکرین پر سفر کا آغاز کیا۔ اس ڈرامے کے لیے بجیا کو نئے چہرے کی تلاش تھی، بھارتی فلمی صنعت کے مشہور اداکار امیتابھ بچن سے مشابہت کی بنا پر فاطمہ ثریا بجیا نے اظہار قاضی کو اداکاری کا موقع فراہم کیا۔

الفا براوو چارلی

اپنے دور کے اس مقبول ترین ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنائی گئی اس ڈراما سیریل میں تین دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کاشف کی فوج کو خیرباد کہہ دینے کی خواہش اور فراز کی اپنے دوست کو بیدار کرنے کے لیے کی جانے والی شرارتیں آپ کو اس وقت تک اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کردیں گی جب تک کہ سنجیدہ معاملات شروع نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح شرارتی کاشف کا سیاچن گلیشیئر پہنچ کر بتدریج سنجیدہ ہونا اور اپنے ملک کے لیے جان کو داؤ پر لگا دینے کی ادا تو سب پر جادو سا کر دیتی ہے۔ پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور اب بھی اسے دیکھ کر وہی لطف آتا ہے جو پہلی دفعہ دیکھ کر آتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔