حضرت علی رضی اللہ عنہ

نسیم انجم  اتوار 2 جون 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

حضرت علیؓ حضرت محمد ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے حضرت علیؓ کا نشان اور مرتبہ اللہ نے اس طرح بڑھایا کہ آپ کی ولادت کعبہ میں ہوتی ہے اور شہادت مسجد میں، آپؓ کے خاندان کو کعبہ کی تولیت کی وجہ سے پورے عرب میں مذہبی سیادت حاصل تھی، حضرت محمد ﷺ آقائے دو جہاں سرکار مدینہ کو اپنے چچا ابو طالب اور ان کی اولاد سے بہت محبت تھی۔

حضرت محمد ﷺ کے چچا ابو طالب بھی اپنے یتیم بھتیجے سے بے حد محبت اور خیال رکھتے تھے، آپ کی چچی فاطمہ بھی شفقت کا برتاؤ کرتیں، ابو طالب کے مالی حالات اچھے نہ تھے، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے اپنے دامن پرورش میں لے لیا، آپ ﷺ کی صحبت کے یہ اثرات مرتب ہوئے جب آپ ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو بچوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ نے اسلام قبول کیا ایک موقع پر آنحضرتؐ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے بنی مطلب میں تمہارے سامنے دنیا اور آخرت کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں، تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا اور کوئی ہے جو میرا معاون و مددگار بنے تو پورے مجمع میں سے ایک آواز یہ آئی کہ ’’گو میں عمر میں چھوٹا ہوں اور میری ٹانگیں کمزور ہیں، تاہم میں آپ کا معاون و مددگار بنوں گا یہ حضرت علیؓ تھے جنھوں نے تین بار سوال کا جواب دیا، پختہ عزم اور حوصلے کے ساتھ، رسول پاکؐ نے فرمایا، تم میرے وارث اور بھائی ہو۔ مدینہ آنے کے بعد 2ہجری میں حضرت علیؓ کا نکاح بی بی فاطمہ سے ہوا، اس طرح حضرت علیؓ کو آپؐ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت علیؓ نے ان تمام غزوات میں حصہ لیا۔ غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، بنی قریظہ اور حنین وغیرہ میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ حضرت علیؓ کا دور خلافت خانہ جنگی اور اندرونی خلفشار میں گزرا۔

حضرت علیؓ کو رسول پاکؐ کے دامن دولت سے وابستگی کے باعث فضل و کمال اور تحصیل علم و کسب کی فطری صلاحیت کا ذوق تھا۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ اور جملہ دینی علوم کا دریا تھے۔ آپؓ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے تھے کہ علم کے دس حصوں میں سے اللہ تعالیٰ نے علیؓ کو نو حصے عطا کیے ہیں اور دسویں میں بھی آپ شریک تھے، زبان نبوت سے آپؓ کو ’’انا مدینۃ العلم و علی بابھا‘‘ کی سند ملی۔

کلام الٰہی سے آپؓ کو خاص شغف تھا آپ اس کے حافظ تھے۔ کلام اللہ پر آپ کی نظر اس قدر وسیع تھی کہ کسی بھی آیت کا پس منظر آپ سے مخفی نہ تھا۔ رسول پاکؐ کی وفات کے بعد آپؓ نے آیتوں اور سورتوں کی نزولی ترتیب پر قرآن پاک کا ایک نسخہ مرتب کیا اسی طرح عدل و مساوات سب کے لیے یکساں تھا، امیر کو غریب پر فوقیت نہ تھی بلاامتیاز مذہب و ملت سب برابر تھے اگر خود آپ کسی مقدمے میں فریق ہوتے تو قاضی کے سامنے حاضر ہونا پڑتا اور اگر ثبوت نہ ہوتا تو مقدمہ آپ کے خلاف فیصل ہوجاتا، ایک مرتبہ آپ کی ذرہ گر پڑی اور ایک نصرانی کے ہاتھ لگی۔

حضرت علی نے اپنی ذرہ دیکھی تو پہچان گئے اور قاضی شریح کی عدالت میں دعویٰ کیا، نصرانی نے جھوٹ بولا کہ یہ ذرہ اسی کی ہے، قاضی نے حضرت علیؓ سے ثبوت کے بارے میں دریافت کیا، آپؓ کا جواب نفی میں تھا۔ لہٰذا فیصلہ نصرانی کے حق میں ہوگیا، لیکن اس واقعے کا نصرانی پر اتنا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا اور کہا یہ تو انبیا کے جیسا حساب ہے کہ امیر المومنین قاضی کے سامنے مجھے پیش کرتے ہیں اور قاضی آپؓ کے خلاف فیصلہ دیتا ہے، حضرت علیؓ عمال کی اخلاقی نگرانی خصوصی طور پر فرماتے تھے اکثر انھیں رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا احکام صادر کرتے ان کے اعمال و افعال کا احتساب فرمایا کرتے اور ان کی حکومت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے، اسی حوالے سے ایک واقعہ، ایک عامل کے بارے میں بہت سی شکایتیں موصول ہوئیں تب حضرت علیؓ نے انھیں خط لکھا جن کے ایک اقتباس سے یہ چند سطور ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہو، بخورات اور روغنیات کا استعمال کثرت سے اور تمہارے دسترخوان پر الوان نعمت ہوتے ہیں اور منبر پر تم صداقت و یقین کا درس دیتے ہو اس طرز حیات سے کہ تم بیواؤں اور یتیموں کا مال کھا جاؤ اور اپنی زندگی ان کے مال سے عیش میں گزارو۔ تم اپنے نفس کی اصلاح کرو اور حقوق اللہ کی ادائیگی کا اہتمام۔‘‘

اس کے علاوہ کمیشن مقرر کرکے حاکموں کے طرز عمل کی تحقیقات کروانا اپنا فرض سمجھتے تھے، تقسیم میراث کے فن میں آپ کا شمار مدینہ کے ممتاز علما میں ہوتا تھا۔ شیخین کے زمانے میں اہم مقدمات میں آپ کا مشورہ شامل ہوتا تھا۔ مختلف اقسام کے مقدمات میں آپؓ کے فیصلے کتابوں میں محفوظ ہیں، تصوف کا سرچشمہ حضرت علیؓ کی ذات گردانی جاتی ہے آپؓ کا شمار فصحائے عرب میں ہوتا ہے۔

آپؓ کے خطبات فصاحت و بلاغت سے مزین ہوتے تھے، فن نحو کی بنیاد آپؓ نے رکھی، سب سے پہلے آپؓ نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص ابوالاسود دؤلی کو چند اصول تلقین فرمائے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ کسی عجمی کو قرآن پاک غلط طریقے سے پڑھتے سنا تو اس کی تصحیح کے لیے نحو کی ضرورت محسوس ہوئی، انھوں نے حضرت علیؓ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں نحو کے چند قواعد مرتب کیے۔

حضرت علیؓ کی ذات خلق نبوی کا پیکر اور اسلامی تعلیم کی تصویر تھی آپ کی زندگی زہد و تقویٰ کا نمونہ تھی زہد کے بارے میں آپؓ کا مقولہ ہے، دنیا مردار ہے جو اسے حاصل کرنا چاہے اسے کتوں کی صحبت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ خلیفہ وقت کی قناعت اور صبر کا یہ عالم تھا کہ اوڑھنے کے لیے ایک مختصر سی چادر تھی اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر برہنہ ہوجاتا، آپ کے ساز و سامان میں ایک مینڈھے کی کھال تھی جو بستر کا کام دیتی تھی، حضرت فاطمہؓ جو مختصر سا جہیز لائی تھیں اس میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا ۔پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی صاحبزادی خاتون جنت، اپنا تمام کام خود کرتیں کوئی نوکر میسر نہ تھا، ایک بار رسول خدا ﷺ سے ملازمہ کے لیے کہا لیکن آپؐ کا جواب سن کر آپ خاموش ہوگئیں۔

گھر میں فاقوں کی نوبت آنے پر حضرت علیؓ نے مدینہ کے اطراف میں ایک بوڑھی عورت کا کھیت سینچ کر مٹھی بھر کھجوریں حاصل کیں اسی طرح اپنی تلوار کو بیچ کر کھانے پینے کا سامان خریدا، ساری زندگی عبادت و ریاضت اور فقر و فاقہ کے ساتھ گزاری، کوئی حرف شکایت لبوں پر نہ آیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ وہ قائم الیل اور صائم النہار تھے، آپؓ کی ساری زندگی جنگوں میں گزری جہاں آپ نے شجاعت کی تاریخ رقم کی، خیبر کا قلعہ فتح کرکے ثابت کردیا کہ حضرت علیؓ جیسا جری کوئی دوسرا نہیں، ہم تمام مسلمان حضرت علیؓ سمیت چاروں صحابہ کرام کی سیرت پاک پڑھتے اور قدر و منزلت کرتے ہیں لیکن اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے کافی دور نظر آتے ہیں، اسی وجہ سے مسلم امہ زوال کا شکار ہے۔ فاتح قوم مفتوح بن چکی ہے اور ہر طرح کے ظلم و ستم سے نبرد آزما ہے لیکن اپنے آپ کو بدلنے کے لیے ہرگز تیار نہیں، یہی بدنصیبی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔