یادِ یارِ مہرباں

بہت سے دوست صحافت سے ریٹائر ہو کر واشنگٹن جا بسے ہیں اوروطن کی یاداور قارئین سے رابطہ کیلئے اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔


Abdul Qadir Hassan August 31, 2013
[email protected]

لاہور: ادھر چند ہفتوں سے میں بہت خوش ہوں اور وہ یوں کہ ہفتے میں ایک بار ہی سہی مجھے اپنے بہت ہی پرانے دوست کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ عمر بھر کی عملی صحافت کے بعد اب وہ ریٹائر ہو کر واشنگٹن میں مقیم ہو گئے ہیں اور وطن مالوف کی یاد تازہ کرنے کے لیے اپنے پرانے قارئین کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کے لیے وہ ایک پاکستانی اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ میں انھیں اپنے اخبار سے وابستہ کرنا چاہتا تھا مگر ایسا نہ کر سکا۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا اور جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب لوگوں کو اقتدار اور مال مل جاتا ہے تو وہ بدلتے نہیں ہیں بس ان کی اصل ظاہر ہو جاتی ہے، ان کے نقاب الٹ جاتے ہیں اور پردے اٹھ جانے کے بعد سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔

بہر کیف اب وہ ایک نئے اخبار میں کالم لکھ رہے ہیں ''واشنگٹن ڈائری'' کے عنوان سے۔ ان کا پیارا نام سید اکمل علیمی ہے لیکن دوستوں میں وہ صرف اکمل، وہ امروز کی پیداوار اور میں بھی کسی چکر میں امروز کے ایک ساتھی جریدے لیل و نہار میں پہنچ گیا۔ اس طرح اکمل کے ساتھ پہلے سے جو تعلق تھا وہ قریبی ہو گیا۔ ہمارے تیسرے دوست فوت ہو چکے ہیں اور ان کا نام لکھنے اور لینے کی ہمت بھی وہ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ اکمل اور میں جب بھی ملتے ہیں تو اس کا ذکر نہیں کرتے۔ اب اتنی ہمت کہاں۔

اکمل لاہور بلکہ اندرون لاہور کی پیداوار ہیں۔ اندرون دہلی دروازہ میں ان کے بزرگوں کے مزار ہیں۔ اسی مکان میں وہ رہتے تھے، اپنے بزرگوں کے ساتھ، کبھی کبھار ہم پردیسی بھی ان کے ہاں چلے جاتے۔ امی اپنے بیٹے کے دوستوں سے بہت پیار کرتیں لیکن انھیں چائے بنانی نہیں آتی تھی۔ لاہور کے اس حصے میں لوگ گھروں میں ناشتہ نہیں کرتے اور نہ چائے بناتے اور پیتے ہیں۔ ہمارے لیے اکمل باہر سے چائے لے کر آتا تھا۔ دفتری کاموں کے علاوہ ہمارا وقت ایک ساتھ ہی گزرتا تھا۔ یہی معمول تھا، میں کرائے کے جس کمرے میں رہتا تھا یہ سب کا اڈہ تھا۔ دوستوں کے غلط کار لمحے اسی کمرے میں گزرتے تھے۔ اکمل امروز کا رپورٹر تھا، میں لیل و نہار کا ایک سب ایڈیٹر جس کے سپرد فیچر نویسی تھی، ایڈیٹر سبط صاحب جیسا سخت ایڈیٹر جس نے ادارے کے نئے معیار قائم کیے ہمارے لیڈر تھے اور فیض صاحب جو ان کے دوست تھے ان کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے تھے۔

وہ پاکستان ٹائمز یا امروز کے دفتر میں نہیں جاتے تھے جب کہ احمد ندیم قاسمی ایڈیٹر امروز ان کے دوست تھے اور نوابزادہ مظہر علی خان بھی لیکن سبط صاحب سے ان کی پرانی دوستی تھی اور ترقی پسندی کا اٹوٹ رشتہ بھی تھا۔ فیض جیسے بڑے شاعر سے ہم جونیئرز کا دن رات کا رابطہ رہتا تھا اور اگر سبط صاحب کبھی غیرحاضر ہوتے تو ہماری ایڈیٹری بھی فیض صاحب کرتے تھے۔ وہ ہماری تحریروں کی کیا خوبصورت تصحیح کرتے تھے۔ فیض صاحب اردو نثر کی بھی شاعری کی طرح ایک نادر شخصیت تھے۔ کتنا بڑا اعزاز ہے جو ہم مبتدی صحافیوں کو حاصل تھا۔ اکمل چونکہ امروز میں تھا اس لیے وہ اس اعزاز سے محروم رہا۔

اس زمانے میں سیاست بھی ہنگامہ خیز نہیں تھی اور ہم صحافی امن کی زندگی بسر کرتے تھے۔ مسلم لیگ تھی، دوسری چھوٹی بڑی جماعتیں تھیں لیکن نوابزادہ نصراللہ خان اپنا ڈیرہ چلاتے رہتے تھے جس سے سیاست میں کچھ تازگی پیدا ہو جاتی تھی۔ ویسے وہ بڑے لیڈروں کا زمانہ تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، خان عبدالولی خان، چوہدری ظہور الٰہی، مفتی محمود، مولانا نورانی غرض لیڈروں کی ایک کہکشاں ضوفشاں تھی جو ملک پر چھائی ہوئی تھی۔ سیاسی ہیراپھیری اپنی جگہ مگر مالی کرپشن کا کوئی تصور نہ تھا جو بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی نے متعارف کرایا اور ملک جس کے شکنجے میں سسک رہا ہے، نہ جانے کیا بنے گا۔ یہ لیڈر سیاسی اخباری رپورٹروں سے بہت اچھا رابطہ رکھتے تھے، لفافہ نہیں پیار دیتے تھے۔ صحافی ان کے ہاں چائے کے روادار تھے اور بس۔ اکمل، میں اور ہمارے دوسرے دوست سیاسی ہنگاموں سے بے فکر ہو کر لاہور کی زندگی کو انجوائے کرتے تھے۔

تنخواہیں آج کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر لیکن سستے زمانے میں گزر بسر خوب ہو جاتی تھی۔ لیل و نہار میں آئے تو معلوم ہوا کہ یہاں وہ تنخواہ ملتی ہے جو کسی سی ایس پی کو ملا کرتی ہے لیکن کتنے ہی نوجوان سی ایس پی اپنا خرچ پورا کرنے کے لیے ہمارے ہاں مضامین لکھتے تھے جن کا معاوضہ پچاس روپے فی مضمون ملتا تھا لیکن گھریلو اخراجات اور معیار زندگی قائم رکھنے کے لیے انھیں اضافی امداد کی ضرورت ہوتی تھی لیکن وہ رشوت لینے کو اخلاقی جرم اور اپنی ذاتی توہین سمجھتے تھے۔ یہ وہ عمومی حالات تھے جس میں ہم لاہور میں شب وروز کرتے تھے اور جوانی گزارتے تھے۔ اسی ماحول میں ملازمت کے دوران اکمل کو شاید باہر جانے کا کوئی موقع ملا اور وہ امریکا چلا گیا۔ پھر خبر آئی کہ وہ وائس آف امریکا میں ملازم ہو گیا ہے۔ یوں وہ امریکا کا مستقل رہائشی بن گیا۔ جب کبھی کسی دورے پر ہم بھی امریکا گئے تو اکمل ساتھ ساتھ رہا، ایک بار اس نے روک بھی لیا اور کئی دن میں ایک ہوٹل میں اس کا مہمان رہا۔ اس دوران اس نے مجھے امریکا سے متعارف کرایا۔

پاکستانی دانشوروں اور لکھاریوں کی تقریبات میں لے گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میرے ساتھ کیا کرے لیکن بہرحال ایک دن وہ مجھے بادل نخواستہ ایئرپورٹ تک لے گیا۔ اس کے بعد وہ ایک دو مرتبہ لاہور آیا۔ یہاں اپنے بے شمار دوستوں کے ساتھ اس نے چند دن گزارے۔ اپنے اندرون لاہور کے گھر کی کچھ دیکھ بھال کی اور پھر اپنے خاندان کے پاس واپس واشنگٹن چلا گیا۔ اب جب میں اسے لاہور آنے کی دعوت دیتا ہوں تو وہ اپنی عمر اور صحت کا عذر رکھ کر معذرت کر دیتا ہے اور میں اسے قبول کر لیتا ہوں کیونکہ میں خود بھی تو واشنگٹن اس سے ملنے کا سفر نہیں کر سکتا۔ وہ اب وائس آف امریکا سے ریٹائر ہو گیا ۔ امریکا میں کوئی ریٹائر نہیں کیا جاتا لوگ خودبخود ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اکمل بھی تھک کر ملازمت سے ریٹائر ہو گیا اور غنیمت ہے کہ اس کا کالم اور تازہ تصویر میرے دل کو کچھ سنبھال لیتی ہے۔ شاید کہ اس عمر رواں میں ملاقات بھی ہو جائے۔ اب جب سفر کے اسباب اور وسائل آسانی کے ساتھ میسر ہیں تو صحت ساتھ نہیں دے رہی۔ اکمل اپنے آپ کو اور مجھے بھی معاف کر دے گا۔

مقبول خبریں